واشنگٹن نے چین اور روس کی بڑھتی ہوئی عسکری ‘جارحیت’ کو اپنے لیے سب سے بڑا قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے نئی قومی دفاعی حکمت عملی میں دونوں ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی بجٹ میں اضافے کا فیصلہ کرلیا۔

امریکا کے سیکریٹری دفاع جنرل جیمز میٹس نے کہا کہ ‘ہم دہشت گردوں کے خلاف مہمات جاری رکھیں گے لیکن اب امریکا کی قومی سلامتی میں بڑی طاقتوں (چین اور روس) کے ساتھ عسکری مسابقت ترجیحات کی حامل ہوگی’۔

یہ پڑھیں: امریکا سمیت کسی بھی ملک سے ’نوٹس‘ لینے کی عادت نہیں: رضا ربانی

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جنرل جیمز میٹس نے واضح کیا کہ شام اور عراق میں کالعدم تنظیم داعش کی نام نہاد خلافت کو شکست دی جا چکی ہے تاہم داعش، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیمیں تاحال عالمی خطرہ ہیں۔

دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت اور دنیا بھر میں اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ سے امریکا کو سخت پریشانی لاحق ہے۔

خیال رہے کہ اس ضمن میں امریکا الزام لگا چکا ہے کہ بیجنگ سائبر حملوں کے ذریعے واشنگٹن میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے معلومات چوری کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کا نام ’خصوصی واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا

اس سے قبل امریکا اپنے سب سے بڑے حریف روس کے پڑوسی ملک یوکراین اور خلیجی ملک شام میں عسکری طاقت کے ذریعے دخل اندازی سمیت امریکا کے 2016 میں ہونے والے انتخابات میں چھڑ چھاڑ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔

پینٹاگون سے جاری 11 صفحات پر مشمتل دستاویزات میں حکمت عملی سے متعلق کہا گیا کہ امریکا اپنے عسکری امور پر غیر معمولی تبدیلی کا خواہاں ہے۔

ڈپٹی اسسٹنٹ ڈیفنس سیکریٹری ایلبریج کولبے نے کہا کہ ‘ہم گزشتہ 25 سالوں سے بہت کچھ کررہے ہیں اور اب ہماری موجودہ حکمت عملی کا مرکز عسکری صلاحیت پر ہی مرکوز رہے گا’۔

مزید پڑھیں: امریکا، یوکرین کو ہتھیار دینے سے باز رہے: روس

پینٹاگون کے دستاویزات میں تحریر کے مطابق ‘موجودہ حکمت عملی کی بنیاد جنگ میں عسکری تیاریوں خصوصاً بڑی طاقوں کے مقابلے پر مشتمل ہوگی’۔

واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ میں ڈیفنس چیف نے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری اور اقتصادی اثرورسوخ پر خبردار کرتے ہوئے ایشیا پیسیفک خطے میں مزید جنگی بیڑے اور فوجیوں کی تعیناتی کی تجویز پیش کی تھی۔

دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کا موجودہ فیصلہ گزشتہ انتظامیہ کی تجویز سے مماثلت رکھتا ہے تاہم ‘سب سے پہلے امریکا’ کا نعرہ گزشتہ حکمت عملی میں شامل نہیں۔

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا کے اتحادی اور شراکت دار ممالک اہم حیثیت رکھتے ہیں جن کی موجودگی سے اضافی صلاحیت اور خطے میں رسائی ممکن ہوتی ہے ۔

ایلبریج کولبے نے کہا کہ ‘یہ سال 1999 نہیں جب کوئی کہے گا کہ امریکا خود سے کچھ نہیں کر سکتا، تاہم اب یہ حقیقت پسدانہ سچائی ہے کہ ہمیں مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا تاکہ مثبت انداز میں مثبت نتائج حاصل ہوسکیں‘۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا دہشت گردی پہلی ترجیح نہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘دہشت گردی ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے اور ایران اور شمالی کوریا اس معاملے میں ہنگامی مسئلہ ہیں’۔


یہ خبر 20 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں