چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا لاہور میں ہائی کورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم مسلسل تنقید کے باوجود توہین عدالت میں بہت کم لوگوں کا ٹرائل کرتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موجودہ سپریم کورٹ کے بینچ میں خودمختار لوگ موجود ہیں جو سالمیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج اس فورم پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب میں اپنی ٹیم کا تجزیہ کرتا ہوں تو کوئی نقص نظر نہیں آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ علم کی کمی ہوسکتی ہے اور میرے بینچ میں شاید سب سے کم علم میرے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ ٹیم ایک ساتھ مل کر کام کرنا شروع کردے تو یہ سونے سے زیادہ صاف اور مثالی انصاف فراہم کرسکے گی۔

چیف جسٹس نے تقریب میں شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بار اور بینچ ایک جسم کے دو حصے ہیں آپ بینچ کی طاقت ہیں اور بینچ آپ کی طاقت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا کام فتنہ ختم کرنا ہے اور فتنہ ختم کرنے والے لوگ بہت اعلیٰ ہوتے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بیوی بچوں کو کہہ دیا ہے کہ میرا یہ ایک سال تمہارا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب اس ملک میں صرف قانون کی حکمرانی رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جج اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد خود کو اونچا سمجھتا ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے کیونکہ یہ تو ایک امتحان ہے جس میں ہمیں پورا اترنا ہے اور اگر ہم ہی اس میں پورے نہیں اتریں گے تو روز محشر سب سے پہلے ہم سے ہی سوال ہوگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ بہت مظلوم ہیں ان پرظلم ہورہا ہےاور اگر مظلوموں کی داد رسی اگر بار اور بینچ نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟

انہوں نے کہا کہ ہر جج قانون کا پابند ہے اور اگر میں اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تو مجھے بھی گھر چلے جانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ انصاف کرنا ہمارا کوئی احسان نہیں فرض ہے، ہم نے قانون کے مطابق فیصلے کرکے لوگوں کو حق دلانا ہے اور ہمیں کسی کی پسند، مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جج کےلیے تحمل، بردباری اور پختگی کا ہونا بہت ضروری ہے، عدلیہ مکمل آزاد ہے، آپ کو اس پر فخرہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر آپ سب صرف ایک سال دیانت داری سے کام کریں گے تو آپ کو اس دیانت داری کی لت لگ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی بے تخریبی کی کوشش کو ڈیڑھ لاکھ کے لشکر سے پسپا کردیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں