اسلام آباد: پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں اور ضلعی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد کیسز التوا کا شکار ہیں جن میں اکثر افراد کو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود انصاف فراہم نہیں ہو سکا۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان (ایل جے سی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ میں 38 ہزار 5 سو 39 کیسز زیرالتوا ہیں جبکہ تمام ہائی کورٹس میں زیر التوا کیسز کی تعداد 2 لاکھ 93 ہزار 9 سو 47 ہے، علاوہ ازیں وفاق اور صوبوں کے ماتحت ذیلی عدالتوں میں زیرالتو کیسز کی تعداد 18 لاکھ 96 ہزار 8 سو 86 ہے۔

ان کیسز میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 47 ہزار 5 سو 42 کیسز، سندھ ہائی کورٹ میں 93 ہزار 3 سو 35 کیسز، پشاور ہائی کورٹ میں 30 ہزار 7 سو 64 کیسز، بلوچستان ہائی کورٹ میں 6 ہزار 30 کیسز جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16 ہزار 2 سو 78 کیسز شامل ہیں۔

اسی طرح پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں زیر التوا کیسز کی تعداد 11 لاکھ 84 ہزار 5 سو 51 ہے، سندھ میں 97 ہزار 6 سو 73، خیبرپختونخوا میں 2 لاکھ 4 زہار 30 ہے، بلوچستان 12 ہزار 8 سو 26 ہے جبکہ اسلام آباد میں ان کی تعداد 37 ہزار 7 سو 53 ہے۔

سینئر وکیل محمد اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالتیں ضلعی عدالتوں کا اپلیٹ فورم ہیں لیکن ایسا لگتا ہے تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی توجہ آرٹیکل 199 اور آٹیکل 184/3 پر ہے، جو انہیں بنیادی حقوق نافذ کرنے کے اختیارات دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ملک کی عدالتوں میں دائر ’19 لاکھ کیسز نمٹانے کیلئے صرف 4 ہزار ججز‘

تاہم اس معاملے میں ماہر قانون کا یہ بھی خیال ہے کہ عدالتی بار بھی کیسز کے زیرِ التوا کی ذمہ دار ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر طارق محمود جہانگیری کا کہنا تھا کہ وکلاء بھی کیسز کی تاخیر اور سست روی کا شکار ہونے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وکلاء غیر ضروری طور پر کیس کو ملتوی کروادیتے ہیں جبکہ بار کی جانب سے مسلسل ہڑتالوں کی وجہ سے بھی کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس حوالے سے کیسز کے التوا کی ایک مثال شیخ عبدالوحید کی بھی ہے جنہوں نے 11 نومبر 1956 کو نیلامی میں ایک پلاٹ خریدا تھا اور انہیں شاید اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ انہیں ان کے پلاٹ کا قبضہ کبھی نہیں ملے گا کیونکہ 6 دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی یہ کیس اس وقت سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے۔

عبدالوحید ان 20 لاکھ افراد میں سے ایک ہیں جن کے کیسز پاکستان میں ضلعی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک زیر التوا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وکلا کی عدالتوں میں ہڑتال آئینی نظام کی نفی ہے، سپریم کورٹ

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دوبارہ بحال ہونے کے بعد لوگوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب ان کے کیسز جلد سنے جائیں گے لیکن غیر ضرور التوا، دوبارہ سماعت اور سست روی نے ان امیدوں کا بھی دم توڑ دیا۔

پاکستان میں مالی معاملات کے کیسز میں فریقین کو دہائیوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور کبھی تو درخواست گزار کی تیسری نسل کے سامنے کیس کا حتمی فیصلہ آتا ہے۔

عبدالوحید کے کیس میں پلاٹ کے مالک نے عدالت میں اعتراض لگایا کہ ان کی زمین متروکہ املاک ہے جسے فروخت نہیں کیا جاسکتا، تاہم پھر بھی عدالت نے 7 جولائی 1960 میں اس جائیداد کا فیصلہ خریدار کے حق میں دے دیا تھا۔

6 سال بعد 6 فروری 1966 کو یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ عبدالوحید کے حق میں دے دیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے دو تہائی مالکانہ حقوق متروکہ املاک کے طور پر برقرار رکھے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ 18 جون 1968 کو چیلنج کیا گیا اور مارچ 2001 میں درخواست مسترد کردی گئی تاہم 2007 سے دوبارہ سے یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

مزید پڑھیں: قانون سازی عدالتوں کا نہیں پارلیمان کا کام ہے، چیف جسٹس

اسی طرح ایک اور کیس میں 1947 میں ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے راولپنڈی میں چھوڑی گئی 267 جائیدادوں کے ایک ہزار سے زائد ورثا کی دوسری نسل کیس کی پیروی کر رہی ہے۔

آصف بشیر نے ڈان کو بتایا کہ ’میرے والد ان جائیدادوں کے دعوے دار تھے اور وہ 20 سال قبل انتقال کر گئے، اور ان کے انتقال کے بعد سے لیکر اب تک کیس کی پیروی میں کر رہا تھا لیکن اب عمر کے اس حصے میں میں نے کیس کی فائل اپنے بچوں کو دے دی تاکہ وہ اس کیس کی پیروی کر سکیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ تقسیمِ ہند کے 4 دہائیوں بعد اس کیس کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے ان کے حق میں دے دیا تھا تاہم راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جس کے بعد سے وہ زیر التوا ہے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے تمام ہائی کورٹس کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ کیسز کو 3 ماہ کے اندر اندر نمٹائیں۔


یہ خبر 21 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Saud Qureshi Jan 21, 2018 02:59pm
This is to inform that I am also among the people who are suffering from this justice system. My civil revision is pending with Lahore High Court, Rawalpindi Bench, Rawalpindi" since 2014 "Saud A. Qureshi Vs: Addl: District Judge, RWP etc. It took more than six years in the lower courts to decide the case. Please assist that this case may be fixed in the Bench for early hearing. The civil revision is meant for the restoration of Land in Mozaa Khanna Dak, Rawalpindi.