’نقیب اللہ کے معاملے پر کارروائی نہ ہوئی تو وزیر اعلیٰ سندھ کو قاتل سمجھیں گے‘

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2018
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے نقیب اللہ کے معاملے پر کراچی میں بات کررہے ہیں — فائل فوٹو
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے نقیب اللہ کے معاملے پر کراچی میں بات کررہے ہیں — فائل فوٹو

امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ کراچی میں جنگل کا قانون ہے، اگر نقیب اللہ محسود کے قتل پر کارروائی نہیں کی گئی تو ہم وزیر اعلیٰ سندھ کو نقیب اللہ کا قاتل سمجھیں گے۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کو معطل کرنا کوئی سزا نہیں ہے یہ تو معمول کی کارروائی ہے، جس شخص کے دامن پر 424 افراد کے قتل کے دھبے ہیں، انہیں ہم عدالتوں میں دیکھنا چاہتے ہیں اور سندھ حکومت اور آصف زرداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس پر کارروائی کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا ہر شہری راؤ انوار کو ظالم کہتا ہے اور یہ ایک ایسے پولیس افسر ہیں جو عدالتوں کے ماورا لوگوں کو قتل کرنا اپنا مشغلہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بہادر ہوں۔

سراج الحق نے کہا کہ اگر راؤ انوار اتنے ہی بہادر ہیں تو انہیں پاک بھارت سرحد پر بھیجا جائے یا ان کو کسی جنگی محاذ پر بھیجا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جو نظام ہے اس میں بوڑھا، جوان، بچہ کوئی محفوظ نہیں، کراچی میں 118 پولیس مقابلوں میں 424 افراد کو قتل کیا گیا، اگر یہ سب مجرم تھے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ پولیس شہریوں کو گرفتار کرے اور ویرانے میں جا کر قتل کردے، ہم حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ نقیب اللہ کا جرم کیا تھا۔

سراج الحق نے کہا کہ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم اپنی حیثیت کے مطابق کام کرے لیکن جب تک چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن نہیں بن جاتا ہم کسی پر اعتماد نہیں کریں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جو آدمی جرائم کی دنیا سے تعلق رکھتا ہو کیا وہ غاروں میں رہتا ہے؟ اور کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر موجود نہیں ہوتا اور جب یہ اپنے علاقے میں تھا تو پاک فوج نے نقیب اللہ کو وطن کارڈ دیا تھا ،جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ پر امن اور باوقار شہری تھا۔

تحقیقاتی کمیٹی کا نقیب اللہ کے اہل خانہ سے رابطہ

اس سے قبل کراچی میں معطل کیے جانے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے جعلی پولیس مقابلے میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کے معاملے پر تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی اور ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ نے مقتول کے اہل خانہ سے رابطہ کرلیا۔

ڈان نیوز کے مطابق ایڈینشل آئی جی سی ٹی ڈی اور ڈی آئی جی شرقی کے رابطہ کرنے پر نقیب اللہ کے اہل خانہ نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے۔

نقیب اللہ کے کزن نور رحمٰن نے اس رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تمام افسران کی جانب سے کراچی واپس آنے کے حوالے سے پوچھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی واپس آنے پر ہمیں کچھ سیکیورٹی خدشات ہیں اور ہم نے تحقیقاتی کمیٹی کو آگاہ کردیا ہے جبکہ تمام تر معاملات پر گھر میں مشاورت جاری ہے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ ساتھ انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا نے بھی سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے۔

نور رحمٰن کا کہنا تھا کہ مقتول نقیب اللہ کے والد ضعیف ہیں جبکہ وہ اور نقیب کا بھائی مرید خان پیر کو کراچی کے لیے روانہ ہوں گے، امید ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔

اس حوالے سے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ نقیب کے اہل خانہ کو سیکیورٹی فراہم کریں گے، کوشش ہے کہ لواحقین جلد سے جلد انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوں اور مقدمہ درج کروائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں آئی جی خیبرپختونخوا سے بھی رابطہ کیا ہے اور انہوں نے نقیب اللہ کے لواحقین کو سیکیورٹی فراہم کر کے کراچی بھیجنے کا کہا ہے۔

ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ آئندہ دنوں میں تحقیقاتی کمیٹی کے اجلاس ہوں گے اور مزید پیش رفت بھی ہوگی۔

نقیب اللہ ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی

اس سے قبل گزشتہ روز سینئر پولیس افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا تھا کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ماورائے عدالت ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں ہلاک کیا۔

باوثوق ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی نے سندھ پولیس کو جمع کرائی گئی اپنی ابتدائی رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ 27 سالہ نوجوان میں عسکریت پسندی کا کوئی رجحان نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

ذرائع کے مطابق کمیٹی نے تحقیقات کے دوران مبینہ انکاؤنٹر کے مقام کا معائنہ بھی کیا جبکہ کمیٹی کو فائرنگ کے تبادلے کے کوئی شواہد نہیں ملے جس کے باعث کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ نسیم اللہ، جسے نقیب اللہ محسود کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک حوصلہ مند نوجوان تھا جس کا عسکریت پسندی یا جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔

راؤ انوار کی معطلی

یاد رہے کہ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گئے نقیب اللہ محسود کے معاملے پر تفتیش کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں راؤ انوار کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

آئی جی پولیس سندھ کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق راؤ انوار کی جگہ عدیل حسین چانڈیو کو ایس ایس پی ملیر تعینات کیا گیا تھا۔

دوسری جانب راؤ انوار نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی کے رکن ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سلطان خواجہ سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلطان خواجہ نے سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن کو بلا کر کہا تھا کہ اگر وہ ایس ایس پی ملیر کے خلاف بیان دیں تو انہیں بچالیا جائے گا۔

خیال رہے کہ سہراب گوٹھ میں پولیس مقابلے کے خلاف ہونے والے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کو بھی ایس ایس پی راؤ انوار نے سازش قرار دیا تھا۔

نقیب اللہ کا قتل

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

مزید پڑھیں: مبینہ پولیس مقابلہ: راؤ انوار ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے برطرف

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں