کراچی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاکت کے الزام میں معطل ملیر کے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ان کے ملک سے فرار ہونے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے راؤ انوار نے بتایا کہ میڈیا پر دبئی فرار سے متعلق غلط خبریں چلائی جارہی ہیں اور ’میں بالکل ٹھیک ہوں‘۔

سابق ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ روز بھی ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی خبر چلائی گئی تھی تو غلط ہے اور ’آج میرے دبئی فرار ہونے کی کوشش کو ناکام بنانے کی غلط خبر چلائی جارہی ہے‘۔

اس سے قبل اسلام آباد کے بینظیر انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار گزشتہ شب اسلام آباد سے ای کے 615 کی پرواز سے دبئی فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، تاہم امیگریشن کاؤنٹر پر ایف آئی اے کے عملے نے بیرون ملک جانے سے روک دیا اور ان کی بیرون ملک فرار کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے عملے نے راؤ انوار کو یہ کہہ کر دبئی جانے سے روک دیا کہ ان کے خلاف نقیب اللہ محسود کے قتل کی تفتیش جاری ہے لہٰذا جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتی وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔

ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کو امیگریشن آرڈر 506 کے تحت روکا گیا، تاہم انہیں کسی ادارے نے حراست میں نہیں لیا۔

ذرائع کے مطابق راؤ انوار کو دبئی جانے کے لیے این او سی محکمہ داخلہ سندھ کی بجائے براہ راست چیف سیکریٹری کی جانب سے جاری کیا گیا۔

چیف سیکریڑی کی جانب سے مبینہ طور پر جاری این او سی پر چیف سیکریٹری کے دستخط بھی نہیں تھے۔

خیال رہے کہ معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ابھی تک ای سی ایل میں شامل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: 'ماورائے عدالت قتل': معطل راؤ انوار آئی جی سندھ کے سامنے پیش نہیں ہوئے

واضح رہے کہ سابق ایس ایس پی پر کراچی میں محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا الزام ہے۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

راؤ انوار نے پولیس کی انکوائری کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا

بعد ازاں سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے معاملے کی تفتیش کرنے والی انکوائری ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ٹیم کے دو اراکین ان کے خلاف 'ذاتی طور جانب داری' کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب محسود کیس میں کچھ نہیں ہوگا، وائس چیئرپرسن ایچ آر سی پی

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انھوں یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ انکوائری ٹیم میں موجود دو اراکین مبینہ طور پر ان کے خلاف 'ذاتی طور پرجانب دار' ہیں اور انھیں واقعے کے حوالے سے پوچھے بغیرکیس میں ملوث کردیا ہے۔

معطل راؤ انوار آئی جی سندھ کے سامنے پیش نہیں ہوئے

اس کے بعد گزشتہ روز ایس ایس پی راؤ انوار کو کراچی میں آئی جی سندھ اور انسانی حقوق کے کمیشن کے سامنے سینٹرل پولیس آفس میں طلب کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔

اس بارے میں ایس ایس پی انویسٹیگیشن شرقی 2 کا کہنا تھا کہ ہمارا راؤ انوار سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ان کا انتظار کیا گیا لیکن کوئی افسر اب تک پیش نہیں ہوا، جس پر محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے راؤ انوار کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں بصورت دیگر ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں