جب یورپی شہر 'رگا' میں پاکستان کباب سے ملاقات ہوئی

جب لیٹویا کے شہر 'رگا' میں پاکستان کباب سے ملاقات ہوئی

رمضان رفیق

میں ٹالِن سے بس کے ذریعے سوا 4 گھنٹے کی مسافت کے بعد ’لیٹویا‘ کے دارالحکومت رگا پہنچا ہوں، ’لکس ایکسپریس‘ نام کی یہ بس کمپنی خاصی جانی پہچانی سی لگی اور سفر بھی خاصا آرام دہ تھا۔ زیادہ آرام کی خاطر 6 سے 7 یورو کے اضافی خرچے پر ایک مزید آرام دہ سیٹ لینے کا آپشن بھی موجود تھا، اور میں نے اِس آپشن سے مستفید ہونے کے لیے بالکل بھی دیر نہیں لگائی۔

گوگل نقشوں کے مطابق میرا ہوٹل بس اسٹاپ سے 3 سے 4 کلومیٹر دور تھا۔ موسم کے بارے میں خبر کچھ اچھی نہیں تھی، بارش کا امکان تھا لیکن ابھی مطلع صاف تھا، لہٰذا میں کُل ساز و سامان یعنی ایک عدد بیگ پیک، اپنی کمر پر لادے شہر کی سیر کو نکل پڑا۔ اب شام ڈھلے سوچ رہا ہوں کہ سامان ہوٹل میں رکھ آتا تو ہی بھلا تھا، خیر رگا کے بس اسٹاپ سے نکلتے ہی بائیں جانب بڑے بڑے شیڈ سے نظر آتے ہیں جیسے کسی انڈسٹری کا حصہ ہوں، مجھے جانا بھی اسی طرف تھا۔

جب قریب جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ انڈور فارمر مارکیٹ طرز کی کوئی چیز ہے، پہلا شیڈ مچھلی اور دیگر آبی اشیاء خوردونوش کے لیے مختص تھا، جہاں کچّی اور پکّی دونوں طرح کی مچھلی دستیاب تھی۔ مچھلی کی کئی ایک اقسام کو فرائی کرکے رکھا گیا تھا، بھوک بھی تھی لیکن اس بازار کی بو سے ساری بھوک نہ جانے کہاں بھاگ گئی تھی۔ سالمن کے تلے ہوئے قتلے دکھا کر دل کو مائل بھی کیا لیکن دل نہیں مانا، کوئی دلیل نہ ملی تو خود کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ پتہ نہیں آئل کیسا استعمال کیا ہوگا۔

ان ڈور فارمر مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق
ان ڈور فارمر مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق

شوکیس میں تلی ہوئی مچھلیوں کی مختلف اقسام—تصویر رمضان رفیق
شوکیس میں تلی ہوئی مچھلیوں کی مختلف اقسام—تصویر رمضان رفیق

فارمر مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق
فارمر مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق

اِن شیڈز کے باہر بھی خوب بازار سجا ہوا تھا، کوئی پھل بیچ رہا تھا تو کوئی سبزی، کوئی اپنے پھولوں کو پانی دینے میں مگن تھا اور کوئی آنے والے موسم کے لحاظ سے کپڑے کی ریڑھی یا اسٹال لگائے کھڑا تھا۔ باہر لگے ان تمام اسٹالز میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ ٹھیلوں یا ریڑھیوں کی صورت میں تھے۔ اِن اسٹالز پر 90 فیصد سے زیادہ خواتین دکاندار تھیں، اندر موجود دیگر اسٹالز کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ دکانداری کی فیلڈ تو جیسے صرف خواتین نے ہی سنبھال رکھی ہو۔ اپنے ہوٹل کے پاس ایک دو دکانوں پر نظر پڑی تو وہاں بھی خواتین دکانداروں کو براجمان پایا۔

گوگل میپ کے مطابق سینٹرل اسٹیشن نزدیک ہی تھا، ایک دو لوگوں سے پوچھا مگر ان کو میری زبان سمجھ نہیں آئی، پھر اشاروں کی زبان کا سہارا لیا گیا اور اشارے سے ٹرین بنا کر بھی دکھائی جس کے بعد انہوں نے بھی ہاتھ کے اشارے اور زبان سے کہنا شروع کردیا، ’نو انگلش، نو انگلش۔۔۔‘ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں ہماری انگریزی کی دال نہیں گلنے والی، مزید کسی سے پوچھ کر صرف وقت ہی برباد کرتا۔

سڑک کے دوسری طرف مکڈونلڈ نظر آیا سوچا کہ ناشتہ کیا جائے پھر کوئی اگلہ پروگرام ترتیب دیا جائے۔ یہاں پر مکڈونلڈ کا فش برگر مینو ٹالن سے ایک یورو سستا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد پھر سے سامان پشت پر باندھا اور سینٹرل اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ سڑک پار کرنے کے لیے سرخ اشارے پر رُکے تو وہاں چار پنجابی سرداروں سے ملاقات ہوگئی، وہ لوگ ٹؤرزم کی ڈگری کرنے کے بعد چند روز پہلے ہی یہاں آئے تھے۔ دو کے سروں پر سرداری قائم تھی اور دو بنا پگڑی کے تھے، پوچھا کہ یہاں کوئی ڈے پاس قسم کی چیز ہے؟ ان کو اندازہ نہ تھا، کہنے لگے ٹکٹ آفس تک لے چلتے ہیں، وہاں سے پتہ چل سکتا ہے۔

وہ جسے ٹکٹ آفس قسم کی چیز سمجھ رہے تھے وہ ٹرانسپورٹ منسٹری کا دفتر تھا، میرا اس کے اندر جانے کا دل نہ تھا لیکن پنجابی بھائیوں کی محبت کی خاطر اس دفتر کے اندر چلا گیا۔ استقبالیے پر موجود لوگوں کو بھی انگریزی سمجھنے میں مشکل پیش آرہی تھی، اور انہوں نے مجھے کسی دوسرے دفتر کا بتایا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔ میں وہاں سے واپس نکل آیا اور سوچا کہ اب مزید اس ڈے پاس کے چکر میں وقت ضائع نہ کروں اور اسی طرح سامان اٹھائے شہر کی سیر پر نکل پڑوں۔

رگا ریلوے اسٹیشن—تصویر رمضان رفیق
رگا ریلوے اسٹیشن—تصویر رمضان رفیق

ایک چھوٹا سا پُل جہاں محبت کرنے والوں نے تالے باندھ رکھے ہیں—تصویر رمضان رفیق
ایک چھوٹا سا پُل جہاں محبت کرنے والوں نے تالے باندھ رکھے ہیں—تصویر رمضان رفیق

پہلی عمارت جس نے میری توجہ حاصل کی وہ دور سے ایک کچھ عجیب و غریب سی لگ رہی تھی، وہ کوئی سائنس اور ٹینکالوجی سے متعلق ادارہ تھا۔

اس عمارت کے باہر ایک جرمن سیاح سے ملاقات ہوئی، اُس نے بات کا آغاز اس سوال کے ساتھ کیا کہ کوئی تصویر اچھی بھی آئی ہے کہ نہیں؟ میں نے کہا نہیں کیونکہ عمارت کی پُشت پر سورج تھا اور پوری عمارت کو کور کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے پوچھا کیا کیا دیکھا؟ میں نے کہا کہ ابھی تو کچھ نہیں، اس نے کہا سب چیزیں چھوڑ کر اولڈ ٹاؤن چلے جاؤ، میں نے اولڈ ٹاؤن کی پھر سے راہ لی، یہ اسی طرف تھا جہاں میں سب سے پہلی دفعہ سینٹرل اسٹیشن ڈھونڈنے نکلا تھا۔

رگا کا اولڈ ٹاؤن بھی بالکل اسی طرز کا تھا جس طرز کے پرانے قصبے پورے یورپ میں 15ویں عیسوی میں پائے جاتے تھے، پتھریلی گلیاں رنگ برنگے مکان، لیکن رگا کے اس اولڈ ٹاؤن میں ایک محلہ اور 8، 8 چرچ والی بات صادق لگی کہ ہر دوسری گلی میں ایک چرچ تھا اور وہ بھی خاصا بڑا، اتنے زیادہ اکھٹے چرچ مجھے ابھی تک کسی دوسرے اولڈ ٹاؤن میں دکھائی نہیں دیے۔

اولڈ ٹاون، جہاں جگہ جگہ گرجا گھر نظر آتے ہیں—تصویر رمضان رفیق
اولڈ ٹاون، جہاں جگہ جگہ گرجا گھر نظر آتے ہیں—تصویر رمضان رفیق

ایک خوبصورت چرچ—تصویر رمضان رفیق
ایک خوبصورت چرچ—تصویر رمضان رفیق

ان پُرانے شہروں کی ایک خوبی مرکزیت بھی ہوتی ہے، تمام گلیاں آپ کو گھما پھرا کر وہیں لے آتی ہیں۔ انہی گلیوں میں گھومتے گھومتے میں ٹاؤن ہال تک چلا آیا، اس اسکوائر کے ایک طرف پرانا اور مشہور گرجا گھر بھی واقع ہے، جس کی بیرونی دیوار ابھی زیرِ تعمیر تھی، لیکن سیاحوں کی سہولت کے لیے اس دیوار کے سامنے اُسی ڈیزائن کا پینا فلیکس آویزاں کیا گیا تھا تاکہ لوگوں کو اندازہ ہوسکے کہ یہاں کیا تعمیر کیا جارہا ہے یا یہاں پہلے کیا موجود تھا۔

رگا ٹاؤن ہال—تصویر رمضان رفیق
رگا ٹاؤن ہال—تصویر رمضان رفیق

ایک چرچ—تصویر رمضان رفیق
ایک چرچ—تصویر رمضان رفیق

سائنس سینٹر—تصویر رمضان رفیق
سائنس سینٹر—تصویر رمضان رفیق

چرچ جو ابھی زیر تعمیر ہے، لیکن پینا فلیکس پر اس کی تصویر بنی ہوئی ہے—تصویر رمضان رفیق
چرچ جو ابھی زیر تعمیر ہے، لیکن پینا فلیکس پر اس کی تصویر بنی ہوئی ہے—تصویر رمضان رفیق

یہیں پُرانے شہر کی سیر کروانے والی چھوٹی سی ریل گاڑی بھی دستیاب تھی، ایک دو شہر کی سیر کروانے والی کمپنی کے نمائندے بھی ہم جیسے سیاحوں پر مسکراہٹیں نچھاور کر رہے تھے۔

اسی اسکوائر سے چلتے چلتے میں ایک دوسرے گرجا گھر کے سامنے جا پہنچا۔ اس گرجا گھر کی عمارت بھی بہت بلند و بالا اور پرشکوہ تھی۔ اس کے بالکل سامنے لٹویا ریڈیو کا دفتر تھا، اتنے میں ہلکی ہلکی بارش نے موسیقی سے چھیڑ دی۔ میں کچھ دیر کو رُکا بھی لیکن اس بارش میں اسکینڈے نیویا والی نرم مزاجی اور ہلکا پن تھا، اس لیے اس کو برداشت کرنے کو ہی ترجیح دی گئی۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی میرے پاس رگا کے لیے صرف ایک ہی دن تھا۔ پرانے شہر کی سبھی گلیوں میں گھومتا ہوا میں ایکسپلنڈیا تک چلا آیا، یہ ایک باغیچہ ہے جو رگا شہر کے عین وسط میں واقع ہے، اس کے بیچوں بیچ ایک نہر بھی بہتی ہے، جس میں فوارے لگائے ہیں، سیر کے لیے کچھ کشتیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، شہر کے درمیان میں یہ نخلستان بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔

اولڈ ٹاون میں ایک چھوٹا سا نخلستان—تصویر رمضان رفیق
اولڈ ٹاون میں ایک چھوٹا سا نخلستان—تصویر رمضان رفیق

مرکزی شہر کے وسط میں ایک باغیچہ—تصویر رمضان رفیق
مرکزی شہر کے وسط میں ایک باغیچہ—تصویر رمضان رفیق

لیٹویا ریڈیو—تصویر رمضان رفیق
لیٹویا ریڈیو—تصویر رمضان رفیق

شہر کے وسط میں بہتی ہوئی خوبصورت نہر—تصویر رمضان رفیق
شہر کے وسط میں بہتی ہوئی خوبصورت نہر—تصویر رمضان رفیق

ایک صدی پرانے مئیر رگا کا دھاتی مجسمہ جو ایک باغ میں نصب ہے—رمضان رفیق
ایک صدی پرانے مئیر رگا کا دھاتی مجسمہ جو ایک باغ میں نصب ہے—رمضان رفیق

اسی باغ کے ایک طرف روسی طرز کا ایک بہت خوبصورت چرچ ہے۔ اس سے مِلتا جُلتا ایک چرچ میں نے ٹالن میں بھی دیکھا تھا، بالکل اسی طرز کے ڈوم، جن پر شوخ رنگوں سے نقش و نگار بنائے گئے تھے اور محرابوں پر سنہری رنگ کیا گیا تھا۔ دور سے ہی اس چرچ کے مینارے دعوت نظارہ دے رہے تھے، ابھی میں ان کو دیکھنے مین محو تھا کہ ایک مجسمے پر نظر پڑی جس کے قدموں میں کسی نے تازہ پھول نچھاور کر رکھے تھے۔

یہ یہاں کے ایک مشہور شاعر کا مجسمہ تھا، پھر اس کے بعد اسی طرز کے درجنوں مجسمے دیکھنے کو ملے، کوئی موسیقار، کوئی مصور، شاعر یا قلمکار اور کئی ایک قدموں میں پھولوں کے گلدستے دیکھ کر یہاں کے لوگوں سے عجیب سی محبت محسوس ہوئی۔ ایسے لوگ جنہوں نے 200 سال پرانے شاعر کے مجسمے پر بھی پھول نچھاور کر رکھے ہوں ایسے خوبصورت لوگ کو سلام پیش کرنے کو دل چاہا۔

اس باغیچے میں خزاں کی آمد کے آثار نظر آنے لگے تھے، میں اس باغیچے سے گزر کر ان دو رویہ درختوں کی قطار کی طرف چلا آیا جو مجسمہءِ آزادی کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ سامنے دور ایک مینار سا نظر آرہا تھا جو لٹویا کا مینار آزادی تھا۔ شہر کے عین وسط میں درختوں کی یہ قطار بہت بھلی لگ رہی تھی۔

مجمسے کے پاوں میں تازہ پھول—تصویر رمضان رفیق
مجمسے کے پاوں میں تازہ پھول—تصویر رمضان رفیق

شاعر رینس کے قدموں میں پھول—تصویر رمضان رفیق
شاعر رینس کے قدموں میں پھول—تصویر رمضان رفیق

رگا مجمسہء آزادی—تصویر رمضان رفیق
رگا مجمسہء آزادی—تصویر رمضان رفیق

شہر کے عین وسط میں درختوں کی ایک دو رویہ قطار—تصویر رمضان رفیق
شہر کے عین وسط میں درختوں کی ایک دو رویہ قطار—تصویر رمضان رفیق

اس کے بعد پھر سے پرانے شہر کی سرحد آغاز ہو رہی تھی جسے میں پہلے ہی دیکھ آیا تھا، اب مجھے پشت پر 6، 7 کلو بوجھ لادے، کندھے پر کیمرے کا بیگ لٹکائے، اور ہاتھ میں کیمرہ تھامے 4 سے 5 گھنٹے ہونے والے تھے، کندھے درد کرنے لگے تھے، سوچا کہ اب بس کروں اور ہوٹل چلا جاؤں، پھر سوچا کہ شاید ہوٹل جا کر واپس نہ آسکوں اور کچھ کھانے پینے کا اہتمام کرلوں۔

گوگل میں حلال فوڈ نیئربائی تلاش کیا تو حسنہ کباب کا نام چلا آیا۔ کہہ رہا تھا کہ صرف 6 منٹ کی واک ہے۔ نجانے کیوں گوگل کی سمجھ بوجھ پر شک کرتے ہوئے ایک مارکیٹ میں جا گُھسا اور ناکام و نامراد پھر سے اس کو فالو کیا اور بالآخر اس حسنہ کباب کو تلاش کر ہی لیا۔

ایک کمپوزر کا مجسمہ جس کے قدموں میں پھول پڑے ہوئے ہیں—تصویر رمضان رفیق
ایک کمپوزر کا مجسمہ جس کے قدموں میں پھول پڑے ہوئے ہیں—تصویر رمضان رفیق

اولڈ ٹاون کا ایک اسکوائر—تصویر رمضان رفیق
اولڈ ٹاون کا ایک اسکوائر—تصویر رمضان رفیق

اولڈ ٹاون کی ایک گلی—تصویر رمضان رفیق
اولڈ ٹاون کی ایک گلی—تصویر رمضان رفیق

اس جگہ سے ترکی اور عربی قسم کے میوزک کی آواز آ رہی تھی، آرڈر دینے لگا تو مجھے شک ہوا کہ یہ تو ترکی نہیں لگ رہے، میں نے پوچھا پاکستانی ہو، کہنے لگا جی ہاں، پھر کیا بھوک لگی ہو، کھانے والی دکان پر پاکستانی مل جائے تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اُن کے پاس ترکی طرز کا شوراما تھا، مسلسل چلنے نے بھوک بڑھا رکھی تھی، تھوڑا اسپائسی سا شوارما کھا کر مزہ آگیا۔ کچھ دیر ہم وطن سے باتیں کیں، ان سے جب ہوٹل جانے والی ٹرام کا پتہ پوچھا تو ایک دوست باہر ٹرام تک چھوڑنے چلا آیا، سچ میں پردیس میں پاکستان کی محبت تازہ ہوگئی۔

اس پاکستانی دوست نے جس ٹرام کا پتہ بتایا تھا وہ تو خیر مجھے نہیں ملی، لیکن وہاں موجود ایک چینی طالبِ علم کو ایڈریس دکھایا تو اس نے فوراً کسی اپلیکشن میں ایڈریس ڈال کر کہا کہ آپ اس طرف جانے والی کسی بھی ٹرام میں بیٹھ جائیں، یہ آپ کو پاس ہی اتار دیں گی اور یوں میں وہاں سب سے پہلے آنے والی ٹرام میں بیٹھ گیا، چینی طالب علم بھی اسی ٹرام میں سوار ہوا اور اس نے کمال مہربانی سے میرے اسٹاپ پر مجھے بتا دیا کہ آپ یہاں اُتر جائیں۔

راستہ دکھانے والے بھلے پاکستانی—تصویر رمضان رفیق
راستہ دکھانے والے بھلے پاکستانی—تصویر رمضان رفیق

ٹرام سے اترنے کے بعد گوگل کے نقشے کی مدد سے ہوٹل جا پہنچا، اتنا سستا تھری اسٹار ہوٹل یہیں ممکن ہوسکتا تھا۔ میں نے سامان کا بوجھ کچھ کم کیا اور کیمرا لے کر باہر چلا آیا۔ ہوٹل ریسپشن پر موجود خاتون سے ایئرپورٹ جانے کے متعلق معلومات لیں تو اُس نے بتایا کہ ساڑھے 7 یورو میں ٹیکسی آپ کو ایئرپورٹ چھوڑ دے گی۔ ساڑھے 7 یورو! مجھے حیرانی ہوئی، جبکہ اگر یہاں سے سٹی سینٹر جانا ہو تو کرایہ صرف 3 یورو، رگا یورپ کا پہلا ایسا شہر ہے جہاں جاکر مجھے لگا کہ ٹیکسی بھی ذریعہ آمد و رفت ہوسکتی ہے۔ اسکینڈنے نیویا میں ٹیکسی کا میٹر تقریباً اتنے پیسوں سے آغاز ہوتا ہے۔

اتنی سستی ٹرانسپورٹ کا سُن کر پھر سٹی سینٹر چلا آیا، مینار آزادی کے سامنے موجود اوپرا ہاؤس اور باغ کے ڈیزائن نے طبیعت پر بہت اچھا اثر چھوڑا، یہیں بینچ پر بیٹھی ایک مقامی لڑکی کو دیکھ کر اس خیال کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہاں لوگ خوبصورتی کی تلاش میں بھی آتے ہیں۔

یہیں پر گھومتے ہوئے پاکستان کباب کے نام پر نظر پڑی، یہ جگہ آزادی اسکوائر کے پاس ہی تھی لیکن نجانے پہلے کیوں نہیں ملی، پردیس میں پاکستانیوں کو مل کر اور پاکستان کا نام پڑھ کر ایسی ہی خوشی ملتی ہے جیسے کسی پرانے دوست سے اچانک ملاقات ہوجائے۔

نیشنل اوپرا—تصویر رمضان رفیق
نیشنل اوپرا—تصویر رمضان رفیق

پاکستان کباب—تصویر رمضان رفیق
پاکستان کباب—تصویر رمضان رفیق

4 ملکوں کے دارالحکومت میں سے میرا آخری اسٹاپ یہی شہر تھا۔ کل صبح مجھے واپس کوپن ہیگن چلے جانا تھا، نجانے کیا بات تھی اس شہر میں کہ بہت خوبصورت اور بھلا لگا۔ آج 4 ماہ بعد بھی اس شہر کی گلیوں کا نقشہ یوں ذہن میں نقش ہے جیسے ابھی کل پرسوں ہی وہاں سے آیا ہوں۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔