وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کمسن بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرنے کا اعلان کردیا۔

لاہور میں زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ’قوم کی بیٹی کے قتل پر پوری قوم کے دل اشک بار ہے، قاتل کی گرفتاری کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے دن رات کام کیا، جبکہ پنجاب فارنزک لیب نے تحقیقات میں مدد کی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سول اور ملٹری ایجنسیوں نے ایک ٹیم بن کر محنت کی، سول انتظامیہ، سیاسی لیڈر شپ اور میڈیا نے دن رات کوشش کی جس کے نتیجے میں زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔‘

انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی ملزم عمران کی تصویر
انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی ملزم عمران کی تصویر

ان کا کہنا تھا کہ ’زینب کا قاتل 24 سالہ عمران علی سیریل کلر ہے اور قصور کا رہائشی ہے، جس پر دو سال کے عرصے میں 6 سے 7 بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے کا الزام ہے۔‘

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’زینب کے قاتل کی گرفتاری کی کوششوں کے دوران ایک ہزار 150 ڈی این ایز کی پروفائلنگ کی گئی، ڈی این اے میچ ہونے کے بعد پولی گرافک ٹیسٹ بھی کیا گیا جس میں عمران نے اپنی درندگی کا اعتراف کیا۔‘

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس کا ’ملزم‘ ڈی این اے ٹیسٹ میں بے قصور ثابت

’عدالت نے حکم دیا تو عمران کو چوراہے پر پھانسی دیں گے‘

انہوں نے کہا کہ ’ملزم کی گرفتاری کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا، اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی باری ہے، قتل کا کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں جائے گا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ دن رات کیس چلنا چاہیے، میرا بس چلے تو اس بھیڑیئے کو چوک پر لٹکا کر پھانسی دوں لیکن ہمارے ہاتھ قانون و آئین سے بندھے ہوئے ہیں، تاہم اگر عدالت نے حکم دیا تو عمران کو چوک پر سر عام پر پھانسی دی جائے گی۔‘

واضح رہے کہ قبل ازیں پولیس ذرائع کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ زینب قتل کیس میں ایک شخص کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے، جبکہ مذکورہ شخص نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق گرفتار شخص زینب کا پڑوسی اور کوٹ روڈ کا رہائشی تھا تاہم ڈیوٹی افسر نے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی تھی۔

مذکورہ شخص کو زینب کیس کے شبہے میں ایک بار پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا، تاہم ابتدائی تفیش کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شخص کچھ دنوں سے غائب تھا جبکہ پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کرکے اس کے ٹیسٹ کرائے تھے اور اس سے تفتیش بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: عدالت میں ڈی جی فرانزک اور پولیس کی رپورٹ پیش

بعد ازاں پنجاب حکومت کے ترجمان ملک اسد خان نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ابتدائی رپورٹس میں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جو اسے ملزم قرار دیتے ہیں، تاہم حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی درست طریقے سے تفتیش کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز زینب قتل کیس میں پولیس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ ‘اصل ملزم’ کو ڈی این اے ٹیسٹ نے بے قصور ثابت کردیا تھا، جس کے بعد قاتل کی تلاش میں سرگرداں جے آئی ٹی زینب قتل کیس میں ایک مرتبہ پھر اندھیری گلی میں آ کھڑی ہوئی تھی اور اس کے پاس ملزم کا کوئی سراغ نہیں تھا۔

پولیس نے 23 سالہ عمر فاروق کو حراست میں لیا تھا جس کے بارے میں پولیس کو یقین تھا کہ وہ ہی زینب قتل کیس کا اصل ملزم ہے تاہم پیر کو آنے والی ڈی این اے رپورٹ نے عمر فاروق کو بے قصور ثابت کردیا۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس حکام کو طلب کیا تاہم ایک روز بعد ہی سپریم کورٹ نے زینب قتل کا از خود نوٹس لیا اور لاہور ہائی کورٹ کو کیس کی سماعت سے روز دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ہمراہ کیس کی سماعت کے لیے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں

عمران Jan 23, 2018 09:08pm
جبتک والدین کو بھی انکی غیر ذمہ داری کی سزا نہیں دی جاتی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔