Dawnnews Television Logo

ناسا میں 35 سال سے خدمات سر انجام دینے والا پاکستانی سائنسدان

منصوراحمد خان نے بچپن میں فلم دیکھنے کے بعدسوچاکہ وہ سینماکے ٹکٹ کلیکٹربنیں گے،لیکن زندگی نے انہیں دنیا کااہم کام سونپا۔
اپ ڈیٹ 27 جنوری 2018 10:58am

بچپن سے مجھے رات کی تاریکی میں آسمان پر جھلملاتے ان گنت ستارے اور کٹورا سا چاند اپنے سحر میں جکڑتے آئے ہیں، بہت چھوٹی عمر میں آسمان کی ان بے کراں وسعتوں سے بننے والا میرا یہ تعلق بتدریج عمر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مضبوط تر ہوتا گیا اور اب یہ میرا جنون بن چکا ہے۔

بسا اوقات فلکیاتی علوم میں اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے والی دنیا بھر کی نامور شخصیات کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے شدید حیرت ہوئی کہ ٹیلنٹ کی کمی نہ ہونے کے باوجود کیوں آج تک میرا کوئی بھی ہم وطن امریکی خلائی ادارے 'ناسا' (جسے دنیا بھر میں خلائی مشنز کے حوالے سے ایک مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے) تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

ایسی شخصیت کی تلاش اور کھوج کے دوران میری ملاقات اسلام آباد میں ڈائریکٹر تھیو ریٹیکل فزکس ڈیپارٹمنٹ، نیشنل سینٹر فار فزکس ڈاکٹر محسن صدیق سے ہوئی، جن کے ذریعے میرا رابطہ پاکستانی انجینئر/ سائنسدان جناب منصور احمد سے ممکن ہوا، جو گذشتہ 35 سال سے ناسا میں مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اور فی الوقت ڈائریکٹر ایسٹرو فزکس پراجیکٹ ڈویژن کے علاوہ فزکس آف کاسموس اینڈ کوسمک اوریجن پروگرام، گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر، میری لینڈ کے پروگرام مینیجر بھی ہیں۔

جناب منصور احمد نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ 'ہبل ٹیلی سکوپ پروگرام' میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے گزارا ہے، جس میں فلائٹ آپریشن مینیجر اور پراجیکٹ مینیجر کے عہدے قابل ذکر ہیں، وہ اگلے برس 2019 میں لانچ کی جانے والی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ڈپٹی پراجیکٹ مینیجر، اور لیزر انٹرر فیرو میٹر اسپیس انٹینا (لیزا) مشن کے پراجیکٹ مینیجر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں، جو ناسا اور یوریپین اسپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔

جناب منصور احمد سے پشاور میں ان کی ابتدائی زندگی سے لیکر ناسا میں اہم عہدوں تک رسائی اور بتدریج کامیابیوں کا زینہ چڑھنے سے متعلق کچھ سوالات پوچھے گئے، جو آپ کے پیش خدمت ہیں۔

سوال: آپ پشاور میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، ہمیں اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیے، بچپن یا نوجوانی کا کوئی یادگار واقعہ جو آج بھی آپ کو یاد ہو؟

منصور احمد خان: ہمارا گھر پشاور کے قریب قلعہ بالا حصار کے نزدیک تھا، اور میرے والد پاکستان آرمی میں صوبیدار تھے، میں نے پرائمری تک تعلیم کرسچین ہائی اسکول سے حاصل کی، اور میٹرک گورنمنٹ سیکنڈری اسکول پشاور سے کیا، وہاں ہمارا گھر ناز سنیما کے بلکل سامنے تھا، جو اس دور میں پشاور کا واحد سنیما تھا، جہاں انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں، فلم میکنگ کا جو شوق آج تک میرے ساتھ ہے، دراصل یہ انہی دنوں پیدا ہوا، ایک دفعہ میرے والد مجھے 'وائی کنگ' نامی فلم دکھانے لے کر گئے، اگرچہ اس وقت مجھے انگلش کچھ اتنی زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی، مگر میں اس فلم اور سنیما کے ماحول سے کچھ اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ کافی عرصے تک اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے تو میں جواب دیتا کہ میں ناز سنیما میں ٹکٹ کلیکٹر بنوں گا، میرے کچے ذہن کی سوچ تھی کہ اس طرح میں وہاں چلنے والی ساری فلمیں دیکھ سکتا تھا۔

پھرایک دفعہ اپنے رشتہ داروں کے گھر جانے کا اتفاق ہوا جو پاک فضائیہ ایئر بیس پشاور کے قریب رہائش پزیر تھے، اپنے قیام کے دوران میں روز وہاں ایف 86 طیاروں کو اترتے دیکھتا تھا، ایک روز طیارے کے کھلے کاک پٹ سے پائلٹ نے میرے جانب ہاتھ ہلایا تو میرے مستقبل کے منصوبے تبدیل ہوگئے،اور اب پائلٹ بننے کی دھن مجھ پر سوار ہوگئی، گورنمنٹ ہائی اسکول میں میرے ایک دوست نے میرا شوق دیکھتے ہوئے مجھے مری کے قریب واقع ایئر فورس اکیڈیمی لوئر ٹوپا کے بارے میں بتایا، جہاں ہر برس 60 طلباء کو داخلہ دیا جاتا تھا تاکہ انھیں انٹر میڈیٹ کے بعد ایئر فورس کے لیے پہلے سے تیار کیا جاسکے، ہم دونوں نے مئی 1966 میں 13 برس کی عمر میں کیڈٹ اکیڈیمی میں داخلہ لے لیا۔

سوال: عموماً یہ بات مشاہدہ کی گئی ہے کہ پاکستان میں صرف مخصوص ذہنیت رکھنے والے افراد فلکیات اور خلائی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے کہ وہ فلکیات کو باقاعدہ پیشے کے طور پر منتخب کریں،اس حوالے سے آپ کے والدین کتنے مددگار رہے، اگر آپ کے بچوں میں سے کوئی ایسٹرا نامی یا ایسٹرو فزکس کی جانب جانا چاہے تو کیا آپ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے؟

منصور احمد خان: میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کے دو رخ ہیں، پہلی بات تو یہ کہ عموماً والدین اپنے بچوں کے لیے پیشے کے انتخاب میں زیادہ تر یہ سوچتے ہیں کہ انہیں ایسے شعبے میں جانا چاہیے جس میں مستقبل میں انہیں مالی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، مگر بد قسمتی سے ان کی نظر میڈیکل یا انجینئرنگ جیسے گنے چنے پیشوں پر پڑتی ہے، جن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ان سے اچھی تنخواہ والی نوکری با آسانی حاصل کی جاسکتی ہے، مگر درحقیقت بچے ان دوسرے شعبوں کی طرف رجحان رکھتے ہیں جنھیں پاکستان کے اسٹیٹس کو والے معاشرے میں زیادہ قابل احترام نہیں سمجھا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا میں صلاحیت منوانے والی پہلی پاکستانی نژاد خاتون

میں سمجھتا ہوں کہ اگر بچوں کو ان کے طبعی رجحان کے مطابق من پسند شعبے میں جانے دیا جائے تو وہ بلاشبہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے، چاہے وہ انجینئرنگ ہو، میڈیسن، میوزک، کھیل یا کوئی اور شعبہ ہو، اب فلکیات کو ہی لے لیجیے اگرچہ پاکستان میں اس پیشے میں زیادہ ملازمتیں میسر نہیں ہیں، لیکن اگر بچوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ابتداء ہی سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہمیں کائنات کے بہت سے مخفی سوالات کے جوابات مل جائیں گے اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوگی، مگر میرا کیس ایسا نہیں تھا، ظاہر ہے میرے والد مجھے نازسنیما میں ٹکٹ کلیکٹر تو نہیں بننے دیتے مگر وہ ایئر فورس میں جانے پر میری حوصلہ افزائی ضرور کرتے۔

—تصویر بشکریہ منصور احمد خان
—تصویر بشکریہ منصور احمد خان

میں اپنے بچوں کے لیے بھی یہی سوچ رکھتا ہوں وہ فلکیات، پلمبنگ یا ٹیکسی ڈرائیونگ جس کا بھی شوق رکھتے ہیں میں انھیں پابندیوں میں ہرگز نہیں جکڑوں گا، میرے لیے یہ فیصلہ بہت آسان اس لیے بھی ہے کہ ہم مستقلا امریکہ میں مقیم ہیں، جہاں ہر پیشے کی اپنی ایک قدر اور اہمیت ہے اور محنت کرکے کسی کے ذریعے بھی اچھی آمدنی با آسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔

سوال: پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے افراد بہت کم ہیں، اور عام آدمی کی ذہنی سطح سائنسی حقائق کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے، آپ کے خیال میں اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

منصور احمد خان: میرے خیال میں اس مسئلے کے حل کے لیے اسکول کی ابتدائی تعلیم اور تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل کاآغاز کرنا چاہیے، بچے بڑوں کی نسبت نہ صرف زیادہ متجسس ہوتے ہیں بلکہ وہ چیزوں کو زیادہ تیزی سے سیکھتے اور سمجھتے بھی ہیں، لیکن عمر کے ساتھ ترجیحات تبدیل ہونے کے باعث سوچ میں تنگ نظری آجاتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ درسی کتابوں کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ان میں نظریاتی سائنس کے ساتھ عملی تحقیق اور تجربات بھی شامل ہوں، جس سے بچے کتابوں کو بوجھ سمجھنے کے بجائے دلچسپی سے پڑھیں، اور ان سے سیکھیں، اس مقصد کے لیے اساتذہ کو بھی خصوصی تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سلیبس کو بچوں کے دماغوں میں ٹھونسنے کے بجائے ان میں علم کا شوق پیدا کریں۔

میں سمجھتا ہوں سائنس اور آرٹس کے طلباء و طالبات کو ابتدا ہی سے الگ کر دینا چاہیے اور 12ویں کلاس تک سائنسی تعلیم کو لازمی کرنے کے ساتھ ملک بھر سے مایہ ناز سائنسدانوں، انجینئرز اور باصلاحیت افراد کو اسکول و کالجز میں باقاعدگی کے ساتھ لیکچرز دینے کے لیے مدعو کیا جائے تاکہ بچوں میں سائنسی شعبوں کو اختیار کرنے کا شغف پیدا کیا جاسکے، جس کے لیے تعلیمی اداروں میں سائنسی عملی سرگرمیوں کو بڑھانا بھی اشد ضروری ہے۔

سوال: آپ نے یونیورسٹی آف میری لینڈ سے گریجویشن اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے میکینیکل انجینئرنگ میں پوسٹ گریجویشن کی، اگر آپ کو ایک دفعہ پھر موقع دیا جائے تو آپ اپنے لیے کسی دوسری فیلڈ کا انتخاب کریں گے یا آپ اپنے تعلیمی کیریئر سے پوری طرح مطمئن ہیں؟

منصور احمد خان: آپ نے یہ بہت دلچسپ سوال پوچھا ہے، میں کھلے دل سے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آج میں ناسا میں جس عہدے اور مقام پر ہوں اس میں بنیادی طور پر میری پلاننگ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، نہ ہی دوران تعلیم میں نے کبھی ایسا سوچا تھا، جیسے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ابتداء میں فائٹر پائلٹ بننا چاہتا تھا،مگر نظر کمزور ہونے کے باعث میں ایئر فورس فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام رہا، لوئر ٹوپا اکیڈیمی میں مدت ختم ہونے سے پہلے ہی میرے والدین امریکہ میں شفٹ ہو چکے تھے، اگرچہ میں ایئر فورس میں کیریئر بنانے کے لیے پوری طرح مستعد تھا، مگر فٹنس میں ناکامی کے بعد والدین کے پاس جانے کا آپشن میرے پاس موجود تھا اور میں نے ایسا ہی کیا، مگر جہاز اڑانے کا جنون تب بھی ختم نہیں ہوا تھا، سو میں نے ایروناٹیکل انجینئرنگ کا انتخاب کیا، جس کے ذریعے میں اپنا شوق بھی پورا کرسکتا تھا، مگر بی ایس کے آغاز کے وقت یہ امر میرے مشاہدے میں آیا کہ اپولو 11 مشن(انسان کا چاند پر پہلا قدم )ختم ہو چکا تھا، اور ناسا کی مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں تھی، جس کا مطلب تھا مستقبل میں ایروناٹکس اور ایرو اسپیس میں ملازمت کے مواقع محدود ہوں گے، لہذا میں نے اپنے ایڈوائزر کے کہنے پر شعبہ تبدیل کیا، یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں توانائی کے بحران کا آغاز ہوا اورحکومت توانائی کے متبادل ذرائع (جیسے شمسی توانائی اور وائنڈ انر جی )کی تلاش میں تھی، اسی وجہ سے میں نے بعد میں ماسٹرز کے لیے بھی توانائی کے ذرائع کا انتخاب کیا۔

اتفاق سے انہی دنوں ناسا کی جانب سے ایسے انجینئرز کے لیے ملازمتوں کا اعلان کیا گیا جو ‘ہیٹ ٹرانسفر' کا تجربہ رکھتے ہوں، یوں مجھے ناسا تک رسائی حاصل کرنے کا موقع ملا، کہنے کا مطلب یہ کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس میں میری منصوبہ بندی سے زیادہ حالات و واقعات کا عمل دخل رہا، جو خود بخود میرے حق میں ہوتے چلے گئے، ایسا ہر گز نہیں ہے کہ میں نے اپنے پورے کیریئر کے دوران غلطیاں نہیں کیں، میں نے غلط کیریئر کا انتخاب بھی کیا، اور ناموافق لوگوں سے میل جول بھی بڑھایا اور اسی باعث بہت سے کامیابی کے مواقع ضائع بھی کیے، مگر آج جب میں پلٹ کر ماضی کے دریچوں میں جھانکتا ہوں تو شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ایک اور موقع ملنے پر بھی میرا انتخاب وہی شعبے اور راہیں ہونگی جن کی بدولت آج مجھے یہ باعزت مقام میسر آیا۔

—تصویر بشکریہ منصور احمد خان
—تصویر بشکریہ منصور احمد خان

سوال: آپ نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ ہبل ٹیلی اسکوپ پروگرام پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے گزارا، کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ ٹیلی اسکوپ میں ایسا کیا ہے جو اسے منفرد بناتا ہے؟

منصور احمد خان: اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہبل دوربین سائنس کا ہی نہیں انجینئرنگ کا بھی ایک شاہکار ہے، بنیادی طور پر یہ آئیڈیا ہی لاجواب تھا کہ ایک بہت بڑے سائز کی دور بین خلا میں بھیجی جائے، اس سے پہلے جو دوربینیں زمین سے خلا میں مشاہدات کے لیے استعمال کی جاتی تھیں، ان سے صرف رات کے اندھیرے میں دیکھنا ممکن تھا، کیونکہ سورج کی روشنی میں زمین کا ایٹموسفئیر قا بل مشاہدہ روشنی کے ویو لینتھ( طول موج) کو محدود کر دیتا ہے، چونکہ ہبل کو زمین کے ماحول سے اوپر بلندی پر نصب کیا گیا تھا، اس لیے اس کے ذریعے دن اور رات کی تخصیص کے بغیر مشاہدات ممکن تھے۔

رات میں ہم سادہ آنکھ سے جو ستارے دیکھ سکتے ہیں، وہ ہماری ملکی وے گلیکسی کا حصہ ہیں، ہماری کائنات میں مو جود دیگر کہکشائیں ہم سے بہت زیادہ فاصلے پر ہیں اس لیے ان کی روشنی زمین تک پہنچ کر بہت مدھم ہو جاتی ہے، ان کہکشاؤں کی تصاویر لینے کے لیے ہبل کا فوکس کئی روز تک ایک ہی مقام پر رکھا جاتا ہے، آپ اس کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر گھپ اندھیرے میں تصویر لینی ہو تو نہ صرف بہت دیر تک کیمرے کا شٹر کھلا رکھنا ہوگا، بلکہ فوکس بھی ایک جگہ رکھنا ہوگا اور پھر بھی تصویر دھندلی آئے گی، چونکہ ہبل کو ان اجسام پر مرکوز رکھا جاتا ہے، جو ہم سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں، جبکہ یہ دوربین خود بھی 18 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش میں ہے، اور مشاہدات کے دوران اس کے فوکس کو اعشاریہ کی حد تک بھی نہیں ہلایا جاتا، اس ٹیلی اسکوپ کی اپنی انوکھی اور منفرد انجینئرنگ خصوصیات ہیں، جس کے ذریعے ماہرین فلکیات آج کائنات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے اور پرکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔

—تصویر بشکریہ منصور احمد خان
—تصویر بشکریہ منصور احمد خان

سوال: ناسا میں آپ کے کیریئر، خاص کر ہبل دوربین کی مرمت کے دوران پیش آنے والا کوئی غیر معمولی وا قعہ کیا ہمارے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گے، کیونکہ آپ اس مشن کا ایک اہم حصہ رہے ہیں؟

منصور احمد خان: اگرچہ ہبل دوربین سے حاصل ہونے والے نتائج ابتداء ہی سے حیران کن رہے ہیں، اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب دشوار گزار عمل ہے، اس دوربین کے ذریعے حاصل ہونے والی پھٹتے ہوئے ستاروں اور آپس میں مدغم ہوتی کہکشاؤں کی بے شمار تصاویر اس قدر نوکھی ہیں کہ سائنس میں دلچسپی نہ رکھنے والا شخص بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، انہی میں سے ایک 'ہبل ڈیپ فیلڈ 'کی تصویر ہے، اس کو لیتے وقت ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ دوربین کو ایک مخصوص تاریک مقام پر فوکس رکھا جائیگا، جہاں سادہ آنکھ سے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا، 11 دن تک ہبل اس مقام پر تصاویر ڈیٹیکٹ کرتی رہی اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جو فائنل تصویر ہمیں حاصل ہوئی وہ ہزاروں کی تعداد میں روشن اجسام سے بھری پڑی تھی، یہ دراصل کہکشائیں تھیں اور ایک کہکشاں کھربوں ستاروں پر مشتمل تھی، اس تصویر سے ماہرین فلکیات کو کائنات کے عجائب اوراس کی وسعت کے بارے میں صحیح اندازہ ہوا، اس سے سوال بھی ابھر کر سامنے آیا کہ کیا اتنی بڑی کائنات میں ہم انسان ہی واحد تہذیب ہیں؟

ہبل کے ذریعے ہونے والی ایک اور اہم دریافت 'ڈارک انرجی'ہے، ہبل کے لانچ کیے جانے سے پہلے علم فلکیات میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال کائنات کی تقدیر سے متعلق تھا، کہ کیا یہ بگ بینگ کی ابتدائی فورس کے زیر اثر ہمیشہ پھیلتی رہے گی یا یہ رفتار کائنات میں ہر جانب پھیلے ہوئے مادے کے ثقلی دباؤ کے زیراثر سست پڑ جائیگی اور پھیلنے کے بجائے سکڑنے لگے گی؟مگر کائنات کے ساتھ کیا ہوگا اس امر کا انحصار اس میں موجود ماس کی کل مقدار پر ہے، جس کی بدولت اس کے سسٹم میں قوت ثقل پائی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: ناسا نے 10 نئے سیاروں کی کھوج لگالی

سر ایڈون ہبل جن کے نام یہ دوربین منسوب کی گئی ہے، انہوں نے اس ماس کی ایک حتمی مقدار معلوم کی تھی، جسے ہبل کا مستقل( کونسٹنٹ) کہا جاتا ہے، اسی کے باعث سائنسدان حتمی طور پر کائنات کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنے کے قابل ہوئے، یعنی یہ ماس اگر اس مستقل مقدار سے کم ہوگی تو کائنات کا پھیلاؤ اسی رفتار سے جاری رہیگا، لا محالہ جس کا نتیجہ کولنگ کی صورت میں نکلے گا اور یہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی، لیکن اگر یہ ماس اس مستقل مقدار سے زیادہ ہو تو کائنات کے پھیلاؤ میں بتدریج کمی کے ساتھ یہ سکڑنے لگے گی، جس کا اختتام سنگو لیرٹی پر ہوگا یعنی ایک اور بگ بینگ جیسا دھماکہ اور پھر یہ چکر کسی لائف سائیکل کی طرح چلتا رہیگا۔

ہبل دوربین کو خلا میں بھیجنے کا ایک ابتدائی مقصد اس ببل کی مقدار معلوم کرنا تھا، لیکن اس کے بجائے ہمیں اس سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار نہ تو سست ہوئی ہے اور نہ ہی یہ ایک مستقل مقدار سے پھیل رہی ہے، بلکہ اب سے چند بلین سال پہلے اسکے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، یہ اسی صورت ممکن تھا جب یہاں کہیں سے انرجی کی اضافی مقدار دوڑ آئی ہو، لہذا نیوٹن کے پہلے قانون حرکت کے مطابق اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھ گئی، چونکہ اس اضافی انرجی کی مقدار کا آج تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا، اس لیے سائنسدانوں نے اسے 'ڈارک انرجی' کا نام دیا ہے، جو ہبل کے ذریعے حل ہونے والے معموں میں سر فہرست ہے۔

سوال: ہم جانتے ہیں کہ ہبل ٹیلی اسکوپ آپٹیکل ہے، جب کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ انفراریڈ روشنی کے لیے ہے، چونکہ آپ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ پروگرام کے بھی پراجیکٹ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں جیمز ویب دوربین کو ہبل سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگی؟

منصور احمد خان: ایسٹرو فزکس میں مزید تحقیقات کے لیے ہبل اور جیمز ویب دوربین دونوں ہی یکساں اہمیت کی حامل ہیں، اگر ہبل سے انفرا ریڈ روشنی کو دیکھنا ممکن نہیں تو دوسری طرف جیمز ویب سے آپٹیکل اور الٹرا ویولٹ( بنفشی)روشنی کو نہیں دیکھا جا سکتا، لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں مل کر مستقبل میں کائنات کے بہت سے معموں کو حل کرنے کا سبب بنیں گی، ہبل اب تک بلکل ٹھیک کام کر رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2022 تک فعال رہے گی، جبکہ جیمز ویب کو 2019 میں لانچ کیئے جانے کا امکان ہے، سائنس کمیونٹی اور خاص کر علم فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس دن کے بے چینی سے منتظر ہیں، جب یہ دونوں دور بینیں ایک ساتھ کام کریں گی۔

—تصویر بشکریہ منصور احمد خان
—تصویر بشکریہ منصور احمد خان

سوال: ہمیں لیزر انٹر فیرو میٹر انٹینا ( لیزا ) مشن کے بارے میں کچھ بتائیے، گریوی ٹیشنل ویوز دراصل کیا ہیں، اور یہ کائنات کی ابتداء، اسٹرکچر اور ارتقاء کے بارے میں ہماری معلو مات میں کس قدراضافے کا سبب بنی ہیں؟

منصور احمد خان: ایسٹرو فزکس میں آج تک جو بھی پیش رفت ہوئی ہے اور اس میں روز افزوں تحقیقات کے ذریعے جو نئے حقائق منظر عام پرآئے ہیں، وہ سب قابل بصارت روشنی سے حاصل ہونے والے برقی مقناطیسی طیف(الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم) کے تجزیے سے حاصل شدہ معلو مات کی بدولت ممکن ہوا، جسے ہبل ٹیلی اسکوپ با آسانی ڈیٹیکٹ کرسکتی تھی، مگر در حقیقت یہ طیف یا روشنی کی پٹی مکمل روشنی کا ایک بہت قلیل حصہ ہے، جس کے ایک سرے پر ریڈیو موجیں ہیں، تو دوسری جانب بہت زیادہ توانائی کی حامل گیما شعاعیں ہیں، خلاء میں اب تک جو مصنوعی سٹیلائٹ بھیجے گئے اُن کے ذریعے اِن تمام روشنیوں کا طول موج (ویو لینتھ) معلوم کیا گیا، جس سے کائنات کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ ہوا، یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ برقی مقناطیسی طیف ستاروں کے وجود میں آتے وقت تشکیل پاتا ہے اور پھر ان سے مسلسل اس کا اخراج ہوتا رہتا ہے، مگر در حقیقت بگ بینگ کے وقت ستارے موجود ہی نہیں تھے، اور صرف ایلیمیٹری پارٹیکلز(بنیادی ذرات) تھے جو آپس میں اکھٹے ہو کر الیکٹرون اور پروٹان بناتے گئے، جس سے ہائیڈروجن عنصر وجود میں آیا، یہ ہائیدروجن ایٹم بتدریج اکھٹے ہوکر ہائیدروجن کے بلبلوں میں ڈھل گئے اور پھر ان کے (کور) مرکزی حصوں میں فیوژن (چھوٹے ایٹمز کا مدغم ہوکر ایک بڑا نیوکلیئس بنانا) کے عمل کا آغاز ہوا، اور لازمی قوت ثقل دستیاب ہونے کے بعد یہ بلبلے ستارے بنتے گئے، جن سے پھر برقی مقناطیسی شعاعوں کے اخراج کا آغاز ہوا،مگر بظاہر ایک سطر میں بیان کیا جانے والے اس عمل کو وقوع پزیر ہونے میں لاکھوں سال لگے، اس دوران یہ الیکٹرو میگنیٹک ویوز یا روشنی دستیاب نہیں تھی، اس لیے فلکیات کی اصطلاح میں اسے ‘ڈارک پیریڈ' کہا جاتا ہے، لہذا اس کے دوران کیا کچھ ہوا اس کے متعلق صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں، حتمی طور پر کچھ کہنا اب تک ممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا کا 'سورج کو چھونے' کا مشن

دوسری جانب ثقلی موجیں بگ بینگ کے آغاز پر وجود میں آئیں کیونکہ ماس ہمیشہ سے وجود رکھتا تھا، جو گریویٹی کا سبب بنتا ہے، لیزا مشن کی تشکیل کا اصل مقصد ہی یہی تھا کہ سائنسدان کائنات کو ان ثقلی موجوں کے پس منظر میں ایک بلکل نئے انداز سے پرکھ اور سمجھ سکیں، اسی کے باعث انھیں بگ بینگ کے آغاز کے وقت ڈارک پیریڈ میں جھانکنے کا موقع ملا، اسی کی بدولت وہ بلیک ہولز کو گہرائی میں جاکر دیکھنے کے قابل ہوئے جہاں سے روشنی کا قلیل اخراج بھی ممکن نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی اس انٹینا کی تعمیر کے دوران کئی آبزرویٹریز کا قیام بھی ممکن ہوا، جو اب تک پوری طرح فعال ہیں۔

سوال: آپ ستمبر 2017 میں پاکستان آئے اور نیشنل سینٹر فار فزکس اسلام آباد میں طلباء و طالبات سے خطاب بھی کیا، اس دوران کون سےیخاص باتیں آپ کے مشاہدے میں آئیں؟

منصور احمد خان: پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلباء طالبات سے خطاب یقینا میرے لیے ایک اعزاز تھا، میں فلکیات خصو صا ایسٹرو فزکس میں ان کی بے پناہ دلچسپی سے بہت متاثر ہوا، معاشرتی روایات و اقدار کے با وجود لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی برابر تعداد ایک لائق تحسین امر تھا، خاص کر مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ان میں سے بیشتر پی ایچ ڈی فزکس کے اسٹوڈنٹس محدود ذرائع کے ساتھ اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے تھے، جوایک مشکل ترین ٹاسک ہے، میں نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران ان تعلیمی اداروں کے سربراہان سے ملاقات کر کے ان طلباء و طالبات کے لیے ناسا کے سائنسدانوں اور انجینئرز سے رابطے کا بندوبست کیا ہے، تاکہ وہ مزید تحقیق میں ان کی معاونت کر سکیں اور لا محالہ اس سے انھیں فلکیات میں کیریئر بنانے میں بھی مدد ملے گی، میں خواہش مند اسٹوڈنٹس کے لیے ناسا کے سائنسدانوں کے آن لائن لیکچرز کے لیے بھی پوری طرح سر گرم ہوں۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر ڈان ڈاٹ کام میں 17 جنوری 2018 کو انگریزی میں شائع ہوا۔


صادقہ خان بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں اور اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔ سائنس اور سائنس فکشن ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔