کراچی : چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ قتل کیس میں معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے انسپکٹر جنرل (آئی جی ) سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو 3 دن کی مہلت دے دی۔

ماورائے عدالت قتل پراز خود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس نے راؤانوار کی عدم پیشی پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے استفسار کیا کہ انہوں نے معطل اور مفرور راؤانوار کی گرفتاری کے لیے کیا کوششیں کیں؟۔

اے ڈی خواجہ نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ راؤانوار کو حراست میں لینے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جاری ہیں تاہم اب تک گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ راؤ انوار کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ان کے موبائل کی آخری لوکیشن اسلام آباد تھی لیکن اب ملزم کی موجودگی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

یہ پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

عدالت میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سمیت چیف سیکریٹری سندھ، ایڈیشنل آئی جی اور دیگر پولیس افسران عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہم نے راؤ انوار کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا انہیں ہر صورت پیش ہونا چاہیے تھا’۔

عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے کہا کہ ‘یہ تو نہیں کہ راؤ انوار جہاں گیا ہے، وہ جگہ آپ کی پہنچ میں نہیں، کراچی میں بڑے بڑے چھپانے والے موجود ہیں’۔

چیف جسٹس نے اے ڈی خواجہ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘آپ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر آزادی سے کام کریں، ایماندار افسران کو ناکام نہیں ہونے دیں گے’۔

اس موقعے پر آئی جی نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری عمل میں لانے کے لیے بینچ کو یقین دہانی کرائی کہ ‘تین دن کی مہلت دیں یقیناً اچھے نتائج پیش کریں گے’۔

یہ بھی پڑھیں: ’نقیب قتل کیس: راؤ انوار کے خلاف ایف آئی آر درج

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ ‘راؤ انوار نے گزشتہ 15 دن میں بیرون ملک سفر کیا؟ اور یہ بھی بتائیں کے راؤ انوار نے کہیں نجی طیارے کے ذریعے تو سفر نہیں کیا؟’

ڈی جی سول ایوی ایشن کے غیر تسلی بخش جواب پر چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ نجی طیاروں کی تفصیلات ساتھ کیوں نہیں لائے، طیارے آپ کے پاس ہیں تو نام اور تفصیلات بھی آپ بتائیں گے؟’۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ چارٹرڈ طیارے رکھنے والے تمام مالکان کے حلف نامے عدالت میں پیش کیے جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ راؤ انوار کسی نجی طیارے میں تو بیرون فرار نہیں ہوا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جمعرات تک وزارتِ داخلہ اور سول ایوی ایشن حکام رپورٹ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس نے خدشہ ظاہر کیا کہ ‘راؤ انوار بارڈ کے راستے بھی ملک سے فرار ہو سکتا ہے’۔

مزید پڑھیں: ’ماورائے عدالت قتل‘ ازخود نوٹس کیس: راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

جس کے جواب میں آئی جی سندھ کہا کہ ‘ممکن ہے کہ راؤ انوار نے فرار ہونے کے لیے زمینی راستہ اختیار کیا ہو لیکن کچھ بھی کہنا فقط قیاس آرائی پر مبنی ہوگا’۔

دوران سماعت نقیب اللہ کے والد محمد خان نے بینچ سے ان کے بیٹے کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا لیکن چیف جسٹس نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کرمنل کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات (یکم فروری) تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں جمع رپورٹ کے مندرجات

اے آئی جی ثنااللہ عباسی کے ماتحت تین رکنی پولیس کمیٹی نے سپریم کورٹ میں اپنی تفتیشی رپورٹ جمع کرادی جس میں مقابلے کو جعلی قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ راؤ انوار گزشتہ چار برسوں سے ملیر میں تعینات تھے۔

نقیب اللہ قتل کے بارے میں کمیٹی کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس کیس میں راؤ انوار نےانٹیلی جنس رپورٹ پر کارروائی کا دعویٰ کیا تھا لیکن تحقیقات میں انٹیلی جنس معلومات پر کارروائی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار نے جائے وقوعہ پر موجود ہونے سے انکار کیا تھا تاہم کال ڈیٹا ریکارڈ سے ان کے مقابلے کے وقت وہاں موجودگی کے شواہد ملے ہیں تاہم فرانزک رپورٹ میں گولیوں کے خول کی میچنگ نہیں ہوئی۔

پولیس کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے راؤ انوار کی جانب سے باہر جانے کی کوشش کی تصدیق کی ہے۔

پولیس کمیٹی نے کہا ہے کہ راؤ انوار کی سربراہی میں کئی پولیس مقابلے ہوئے جس میں 444 افراد مارے جا چکے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کا 5روزہ ریمانڈ

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں شامل 6 پولیس اہلکاروں کو 5 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی نے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ گرفتارملزمان نے ابتدائی تفتیش میں اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔

نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے کیس میں سب انسپکٹر یاسین، اے ایس آئی سُپرد حسین، اے ایس آئی اللہ یار اور دیگر شامل ہیں۔

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل‘، بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لے لیا

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کا از خود نوٹس لیا جس پر سندھ پولیس کی تین رکنی کمیٹی نے 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

رپورٹ کے مطابق جائے وقوع سے پولیس کے خود کار ہتھیار کے 26 خول ملے جبکہ پولیس کے دعوؤں کے برعکس چاروں افراد پر پولیس نے یکطرفہ گولیاں چلائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں