راولپنڈی: سندھ حکومت نے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل اور دہشتگردی کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت انٹیلی جنس اداروں سے مدد مانگ لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے کمشنر اسلام آباد، آزاد جموں اور کشمیر کے ہوم ڈپارٹمنٹ اور گلگت بلتستان کی حکومت کو خط لکھا گیا ہے، جس میں کہا گیا کہ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے الزام میں راؤ انوار تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں لہٰذا ان کی گرفتاری کے لیے مدد کی جائے۔

سندھ حکومت کی جانب سے لکھے گئے خط میں زرین داور نامی ایک شخص کی گرفتاری کے لیے بھی مدد مانگی گئی ہے۔

خیال رہے کہ زرین داور پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر راؤ انوار کے سر کی قیمت مقرر کرکے تشدد کو فروغ دینا چاہا تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

اس کے علاوہ تمام صوبائی حکومتوں اور انٹیلی جنس اداروں سے مدد طلب کرنے اور راؤ انوار، زرین داور اور ان کے سہولت کاروں کی گرفتاری کے لیے ایس ایس پی ذوالفقار ماہر، ایس ایس پی ملیر عابد حسین قائمخانی، ڈی ایس پی عزل نور، انسپکٹر فاروق اعظم اور راجہ مسعود پر مشتمل پولیس کی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو معطل ایس ایس پی راؤ انوار نے اسلام آباد کے بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی، جسے امیگریشن حکام کی جانب سے ناکام بنا دیا گیا تھا، بعد ازاں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا تھا۔

دریں اثناء سندھ حکومت کی جانب سے بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ ایئرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کریں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ راؤ انوار کب ایئرپورٹ پر آئے اور ان کے ساتھ کون موجود تھا۔

ذرائع کے مطابق سیکیورٹی حکام کی جانب سے راؤ انوار کو بورڈنگ پاس جاری کرنے والی نجی ہینڈلنگ کمپنی کے حکام سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ ادارے میں موجود ان کالی بھیڑ کے بارے میں بتائیں جس نے بین الاقوامی مسافروں کی روانگی کے ڈپارٹمںٹ لاؤنج میں اماراتی ایئرلائن ڈیسک سے پولیس افسر کے لیے بورڈنگ کارڈ حاصل کیا۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں