3 سالہ مریم ایک گھلنے ملنے والی، خوش مزاج اور آسانی سے کھانے پینے والی بچی تھی مگر پھر اچانک اس میں تبدیلیاں آنے لگیں اور اس کی شخصیت یکدم بدل کر رہ گئی۔

وہ حد سے زیادہ چڑچڑی، رونے والی، کھانا نہ کھانی والی بچی بن گئی، دوسری جانب اس کے والدین روزمرہ کی زندگی میں اتنے مشغول ہو گئے کہ کئی ہفتوں تک ان کی بچی اپنا زیادہ تر وقت موبائل، ٹی وی اور لیپ ٹاپ پر بہت زیادہ ویڈیوز اور کارٹونز دیکھ کر گزارتی رہی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے اندر کی نرمی، خوش اخلاقی اور گھل مل کر رہنے کی عادت بری طرح متاثر ہوئی۔

یہ صرف ایک بچی کا معاملہ نہیں، اس طرح کے واقعات ہر گھر اور خاندان میں آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی ایک طرف جہاں ہماری زندگیوں کو آسان بنا رہی ہے وہیں دوسری جانب اس کے کچھ ایسے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں جن پر اگر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ نسلوں کو اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کس طرح بچوں کی شخصیت، مزاج اور رویوں پر اثر انداز ہو رہی ہے؟ ماہرین اور محققین کے مطابق اس کے چند بڑے دائرے کچھ اس طرح سے ہیں:

ذہنی صلاحیتوں میں کمی

ایک نیورو سائیکالوجیسٹ صنم حفیظ کا ماننا ہے کہ جب بڑوں کے لیے مسلسل اسکرین دیکھنا خطرناک ہے تو بچے، جو مسلسل والدین کی موبائل فون کی ٹونز سنتے اور انہیں موبائل استعمال کرتے دیکھتے ہیں، کے لیے کسی بھی طرح درست نہیں۔

سائیکالوجیسٹ کہتی ہیں کہ "اب تو ایسے ننھے منے بچے ہیں جو جانتے ہیں کہ کس طرح سوائپ کر کے موبائل یا ٹیبلٹ کو آن کرنا ہے۔ وہ اپنی ماں کا موبائل لیتے ہیں اور جس ایپ یا گیم پر چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں، اور یہ سب اس قدر تحرک دینے والا ہوتا ہے کہ ان کے اندر دیگر بچوں کی طرح کی صلاحیتیں نہیں پیدا ہو پاتیں۔ وہ مسائل حل نہیں کر پاتے کیوں کہ 'اسکرین' ہی ان کے لیے یہ کام کر رہی ہوتی ہے۔"

"والدین کو چاہیے کہ بچوں کو انعام کے طور پر فون، ٹیبلٹ یا کوئی اور ڈیوائس نہ دیں۔ بلکہ کوئی پزل ، کوئی کتاب یا ایسی ہی کوئی چیز دیں۔ حالانکہ والدین کے لیے یہ کافی آسان ہوتا ہے کہ وہ بچے کو ڈیوائس پکڑا کر اپنے کام کر سکیں، مگر یہ بچوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ جب ہم بڑوں کے لیے یہ کام اتنا مشکل ہے تو سوچیں بچوں کو اسکرین سے دور کرنا کتنا مشکل ہوگا۔"

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ بچے اکیڈمکس جیسے ریڈنگ، میتھ وغیرہ میں تیزی سے نیچے آ رہے ہیں۔

پرسنالیٹی ڈس آرڈرز

ٹیکنالوجی کا بڑا اثر جس کا اسکولوں اور گھروں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے وہ ہے آپس میں لڑائی جھگڑے یا کمزور بچوں کی Bullying۔

ٹیکنالوجی کے بہت زیادہ اور مسلسل استعمال سے بچوں کے نیورو پاتھ ویز(neural pathways) یا دماغ میں معلومات منتقل کرنے والے راستے، کچھ اس طرح سے ترتیب پا جاتے ہیں جو بچوں کو جھگڑالو اور کچھ عرصے بعد غنڈہ گردی کی طرف لے جاتے ہیں۔

ہمدردی کی کمی

چند انتہائی بڑے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچوں میں دیگر بچوں اور گھر والوں سے ہمدردی کی کمی ہوجاتی ہے۔

امریکی شہر ڈیلاس کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر راجر جی بٹلر سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے حوالے سے سب سے زیادہ ریسرچ شائد بچوں پر ان کے اثرات کے حوالے سے ہی ہو رہی ہے کیونکہ ایک طرف یہ بچوں کی ذہنی طور پر کند کر رہے تو دوسری طرف قریبی تعلق قائم کرنے کے حوالے سے بھی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔

انٹر پرسنل صلاحیتوں کو زنگ لگنا

اسی طرح ڈاکٹر بٹلر کے مطابق جو بچے کئی کئی گھنٹے اسکرین اور سوشل میڈیا استعمال کرتے گزارتے ہیں وہ حقیقی زندگی میں کمیونیکیشن کی صلاحیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق جو صلاحیتیں بچوں میں خود بخود پیدا ہوجاتی تھیں، جیسے باڈی لینگوئج کو پڑھنا، بات کو سیاق و سباق کے مطابق سمجھنا، چہرے کے تاثرات وغیرہ، وہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیدا نہیں ہو پارہی۔

ان سب کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے انٹرپرسنل اسکلز سے بھی محروم ہیں۔

جسمانی کمزوری

بہت زیادہ دیر تک اسکرین کے استعمال کی وجہ سے بچے چڑ چڑے ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بخش غذا سے بھی دور بھاگتے ہیں۔

ڈاکٹر ڈیب کینیڈی، جو Build Healthy Kids پروگرام کی خالق ہیں، کے مطابق اگر آپ کے بچے ٹیکنالوجی ڈیوائسز کے بہت شوقین ہیں تو وہ دیگر بچوں سے کم گھلتے ملتے ہوں گے، وہ بہت زیادہ ورزش نہیں کرتے ہوں گے اور ناں ہی بہتر نیند لے پاتے ہوں گے۔

ان تمام چیزوں کا نتیجہ، بچے کی جسمانی کمزوری اور بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

اگلے آرٹیکل میں کوشش کی جائے گی کہ ایسی ٹپس اور تراکیب پیش کی جائیں جن کے ذریعے بچوں کے ٹیکنالوجی کے بہت زیادہ استعمال کو کنٹرول کیا جا سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں