رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

عاصمہ رانی میڈیکل کی طالبہ تھی اور چھٹیوں پر آئی ہوئی تھی۔ وہ ایبٹ آباد کے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھی۔ وہ تیسرے سال میں تھی، اور مکمل طور پر ڈاکٹر بننے میں اسے محض دو سال باقی تھے۔ تصویروں میں مسکراتی عاصمہ کیمرے کی طرف دیکھتی نظر آتی ہے، شرمیلی لیکن پراعتماد اور ساتھ ہی اس وحشت سے بالکل انجان جو کہ اس کی جان لینی والی تھی۔

اس لڑکی کے آخری لمحے، جو کہ ایک وڈیو میں قید ہوئے اور جو سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہے، بہت ہی دہشت ناک ہیں۔ گولی لگنے کی چند گھڑیوں بعد زندگی کی بازی ہار رہی عاصمہ رانی اپنے قاتل مجاہد آفریدی کا نام لیتی ہے، عاصمہ میں جتنی بھی جان باقی تھی، وہ اس نے ان الفاظ کو حلق سے نکالنے میں لگادی۔

ہم جانتے ہیں کہ عاصمہ رانی کو شادی سے انکار کرنے پر گولی ماری گئی تھی اور وڈیو بننے کے بعد چند لمحے ہی زندہ رہی ہوگی۔ اس کی زندگی کا بھی ویسے ہی خاتمہ ہوا جیسے پاکستان کی ان دیگر نوجوان لڑکیوں کا ہوا جنہوں نے مرد کی خواہشوں کے آگے سر خم کرنے سے انکار کیا۔

ایک دن کے اندر، اس کی میت کو لکی مروت میں واقع اس کے آبائی گاؤں میں خالص مردوں کے اجتماع میں رکھا گیا اور پھر دفنا دیا گیا۔

رپورٹس، جو کہ اکثر حسبِ معمول ایسے کسی جرم کے بعد جاری کی جاتی ہیں،کے مطابق پولیس نے واقعے کے بعد علاقے میں چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ مگر ان چھاپوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ عاصمہ کا قاتل مجاہد آفریدی جو کہ مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ایک مقامی لیڈر کا رشتہ دار ہے، وہ فرار ہو چکا تھا۔

پڑھیے: کوہاٹ: عاصمہ قتل کیس کے مرکزی ملزم کے ریڈ وارنٹ جاری

چند مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ آفریدی خلیجی ممالک کی طرف چلا گیا ہے جہاں وہ کاروبار کے سلسلے میں گیا ہے۔ جس کے بعد پولیس افسران نے انکشاف کیا ہے کہ وہ سعودی عرب فرار ہو چکا ہے۔ تا دمِ تحریر اس کی تلاش کے حوالے سے ملک کے اندر کسی قسم کی کوششوں اور نہ ہی کسی سعودی افسر کے ساتھ رابطہ کیے جانے کی کوئی خبر موصول ہوئی ہے۔ جہاں پولیس پاکستان کے اندر عورتوں کو مارنے والوں کو پکڑنے میں حسبِ معمول گریز کرتی ہے وہاں شاید ہی بیرون ملک فرار ہونے والے قاتلوں کو پکڑنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

بلاشبہ، اگر سزا کے فیصلوں کو یقین اور حقیقت کا ثبوت مانا جائے تو پاکستان میں عورت کا قتل جرم ہی نہیں۔ صرف عاصمہ ہی نہیں کہ جس کا اس کی بھابی کے سامنے کسی قسم کے خوفِ سزا کے بغیر قتل ہوا، کہ ایک آدمی کے ہاتھوں مرنے دیا گیا جو خود کو اس سے شادی کرنے کا حقدار سمجھتا تھا اور انکار کرنے پر سزا دینے کا بھی حقدار بھی خود کو سمجھتا تھا، بلکہ ایسے نہ جاتے کتنے قتل ہوچکے ہیں، اس چھوٹے سے شہر کوہاٹ میں بھی جہاں یہ جرم واقع ہوا۔

کم و بیش ایک سال پہلے، حنا شاہنواز نامی ایم فل گریجوئیٹ کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ حنا اپنے بھائی کی وفات کے بعد اپنی بیوہ ماں اور اپنی بھابھی کا واحد سہارا تھی۔ اس کا قاتل محبوب عالم نامی اس کا کزن تھا، جو بالکل مجاہد آفریدی کی طرٖح فوری طور پر موقعے سے فرار ہوگیا۔ قتل کی وجہ؟ حنا نے اس سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا اور گھر سے باہر کام کرنے کی جرات کی تھی۔ عالم کو گرفتار کرلیا گیا اور سزا سنائی گئی، لیکن اس قسم کے کیسز میں ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ سزا سے بچ جانے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔

پھر دو سال بعد مزید دو قتل ہوئے اور دو عورتوں کو چپ کروا دیا گیا، ان کی صلاحیتوں اور ان کے مستقبل کو مردوں نے صفِ ہستی سے مٹا دیا، جو ایک ایسے معاشرے پلے بڑے تھے جو یہ مانتا ہے کہ عورتیں اُنہیں کبھی کسی چیز کا انکار کرنے کا حق نہیں رکھ سکتیں۔ حالانکہ جہاں ملکی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک معصوم کم عمر لڑکی کی موت پر غم و غصہ چھایا ہوا ہے، وہاں چند ہی ایسے ہیں جنہوں نے رُک کر معاشرے کے مجرمانہ رویوں پر دھیان دلوانے کی کوشش کی ہے، وہی معاشرہ جو پدرشاہی پر یقین رکھتا ہے اور فروغ دیتا ہے۔

ملک کے مرد پدرشاہی کی اس اہم سوچ میں یقین رکھتے ہیں کہ کوئی بھی، خاص طور پر کوئی عورت، انہیں کسی بھی چیز کا انکار نہیں کرسکتی، اسی سوچ کی وجہ سے خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والی مجرمانہ کارروائیوں کو تقویت ملتی ہے۔

دیکھیے: کوہاٹ میں قتل کی گئی عاصمہ کی بہن کی ویڈیو وائرل

عاصمہ رانی کے بھیانک اور دہشت ناک قتل کے واقعے اور اس کے زندگی کے آخری لمحوں میں بنی وہ دہشت سے بھری وڈیو کے باوجود، یقیناً کئی ایسے افراد ضرور ہوں گے جو ظلم کا شکار یعنی لڑکی کو ہی ایسے واقعات کا ذمہ دار قرار دیں گے، وہ لڑکی جو پڑھنے کے لیے دوسرے شہر جاتی ہے، ایک لڑکی جو ایک مرد کو انکار کرتی ہے، پاکستان میں رہنے والی، وہ لڑکی جو اپنے ظلم کا خود ذمہ دار قرار دی جاتی ہے، وہ لڑکی جو مجرم ہے۔ عاصمہ رانی اور حنا شاہنواز کو قتل کردیا گیا، لیکن وہ جو بچ گئی ہیں وہ بھی کرب کی زندگی گزارتی ہیں، معاشرے کی زندہ لاشوں کی طرح، وہ معاشرہ جو ان کے حقوق، ان کی مرضی اور ان کے انکار کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔

اسی لیے، زینب ہو، حنا ہو یا قتل ہونے والی دیگر خواتین اور وہ جنہیں ابھی قتل کیا جانا باقی ہے، ان کو انصاف کی کوئی امید نہیں۔ پولیس ہاتھ پیر مارے گی، سیاستدان بیچ میں آئیں اور کچھ نہیں بدلے گا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ’قتل کی مذمتی‘ قرارداد منظور ہو چکی ہے؛ دو چار شاید اور بھی ہوں۔ جھوٹے دلاسے دیے جائیں گے، اور چند مرد یہ دکھاوا کریں گے کہ انہیں خواتین کے اس تازہ ترین استحصال پر افسوس ہے۔ کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوگا، انصاف کی فراہمی اور مجرموں کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔

2018ء کے پاکستان میں، تبدیلی کی امید مشکل ہی نظر آتی ہے۔ عوررتوں کے قاتلوں کو شاید ہی کبھی عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہو بلکہ سزاؤں سے بچ جاتے ہیں اور نہ ہی ان کی رسوائی ہوتی ہے. اس سے دیگر ان مردوں کو کیا پیغام جاتا ہے جو انکار کرنے والی خواتین کو برداشت نہیں کرپاتے۔ البتہ ہمیشہ سے خواتین کو ہی اس معاشرے میں قیمت چکانی ہوتی ہے، وہ معاشرہ جہاں ان کی آوازوں یا ان کی خواہشات کی کوئی جگہ نہیں۔

جہاں دنیا میں خواتین کو ہراساں، ان کا استحصال یا بے عزت والے مردوں کے خلاف زبردست انداز میں مہمات چلائی جاتی ہیں وہیں پاکستان میں ان کی معمولی انسانی حیثیت اور ان کے وقار سے انکار پر ہی فوقیت دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے عاصمہ رانی ماری گئی۔ کوئی دوسرا ملک ہوتا تو یہ واقعہ ایک الم ناک سانحہ ہوتا مگر پاکستان میں یہ تو ایک معمول کا واقعہ ہے، کیا کیجئے، یہاں وہی سب ہوتا ہے جو مرد چاہتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں