اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 5 سال کے لیے نااہل قرار دے دیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نہال ہاشمی کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔

نہال ہاشمی کو گرفتار کرکے لے جایا جارہا ہے — فوٹو، ڈان نیوز
نہال ہاشمی کو گرفتار کرکے لے جایا جارہا ہے — فوٹو، ڈان نیوز

گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز تقریر پر سپریم کورٹ کے حکم پر تحریری اور غیر مشروط معافی مانگ لی تھی تاہم یکم فروری کو ہونے والی سماعت میں اس معافی کو مسترد کردیا گیا۔

اس موقع پر نہال ہاشمی کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ پولیس نے انہیں عدالتی فیصلے کے بعد گرفتار کر لیا اور بعدِ ازاں انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔

مذکورہ کیس کا تفصیلی فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا، جو بعد میں جاری کیا جائے گا، جبکہ فیصلہ سناتے ہوئے آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ دو ججز کا اس سزا پر اتفاق ہے تاہم جسٹس دوست محمد نے اس حوالے سے فیصلے میں ایک اختلافی نوٹ بھی لکھا۔

نظر ثانی اپیل کا فیصلہ

اڈیالہ جیل جاتے ہوئے نہال ہاشمی نے وکالت نامے پر دستخط کیے تھے جبکہ ذرائع نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کریں گے۔

نہال ہاشمی کے وکلاء کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی درخواست جلد سپریم کورٹ میں دائر کردی جائے گی۔

نہال ہاشمی کو غیر مشروط معافی مل سکتی تھی، رانا ثنااللہء

وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا نہال ہاشمی کی سزا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ جس نے بھی غیر مشروط معافی مانگی اسے قبول کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ میری رائے ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر کھڑے شخص کی جانب سے اس کا مذاق اڑانے پر معافی مل سکتی ہے تو نہال ہاشمی کو بھی معافی مل سکتی تھی۔

نواز شریف کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، شیریں مزاری

رکنِ قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ خداکاشکر ہے کہ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی توہین عدالت کا نوٹس لیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسی ہی عدالتی کارروائی اب سابق وزیراعظم نواز شریف اور توہینِ عدالت کے مرتکب دیگر افراد کے خلاف بھی ہونی چاہیے۔

نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ

ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

ویڈیو میں نہال ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،'اور سن لو جو حساب ہم سے لے رہے ہو، وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں، حساب لینے والوں! ہم تمھارا یوم حساب بنا دیں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'جنھوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کے سن لو! ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاؤ گے، ہم تمھارے بچوں کے لیے، تمھارے خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے'۔

لیگی سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے، جہاں ان سے 5 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے لیگی رہنما نہال ہاشمی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد طلب کرلیا تھا اور ساتھ ہی نہال ہاشمی کے خلاف پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پرانضباطی کارروائی کاحکم بھی دیا تھا۔

بعدِ ازاں گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

نہال ہاشمی نے پارٹی کی رکنیت سے محروم ہونے کے بعد سینیٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دےت دیا تھا تاہم چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا کہ جبکہ انہیں بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دی گئی تھی۔

بعدِ ازاں مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو 'دھمکیاں دینے' اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

بعدِازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا ازخود نوٹس لیا اور معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس نوٹس پر سماعت کر رہا تھا جس میں گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی بھی مانگی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں