لاہور: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے سالانہ کارکردگی رپورٹ 2017 میں محکمہ خزانہ پنجاب میں 300 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف سامنے آگیا۔

اے جی پی نے بتایا کہ اندرونی مالیاتی نظام میں غفلت کے باعث قومی خزانے کو 287 ارب روپے کا نقصان پہنچا یا گیا لاہور اورنج لائن منصوبے کے لیے 27 ارب روپے کی اضافی ادائیگیاں کی گئیں۔

ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پورٹ میں کہا گیا کہ لاہور اورنج لائن منصوبے کے لیے 27 ارب روپے کی اضافی ادائیگیاں کی گئیں جبکہ ترقیاتی فنڈز غیرضروری طور پر روکنے سے 63 ارب روپے سے زائد کی کرپشن ہوئی۔

یہ پڑھیں: چینی ساختہ ’انسدادِ کرپشن‘ مہم پاکستان کے لیے کیوں ضروری؟

سالانہ کارکردگی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ضمنی گرانٹس کے اجراء میں کمزور مالی انتظام کی وجہ سے 103 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت خود مختار اداروں سے رقم وصول کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

بقایہ جات وصولی سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خودمختار اداروں سے بجلی کی مد میں بقایہ جات وصول نہ کرنے پر خزانے کو 5 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا جبکہ ہائیڈرو پاوراسٹیشنز سے خالص پن بجلی منافع کی عدم وصولی پر 38 ارب روپے سے زائد کی بے قاعد گیاں ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کرپشن کے خلاف ستّر سالہ طویل 'جنگ' پر ایک نظر

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پیپکو کو 5 ارب 46 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کیں اور 8 ارب روپے سے زائد کے فنڈز آڈٹ کے بغیر ہی اسٹیٹ بینک کو منتقل کردیے گئے۔

دوسری جانب آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں پنجاب کے دانش اسکولز اینڈ سینٹرز آف ایکسیلنس اتھارٹی میں بھی 2 کروڑ روپے سے زائد کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے۔

رپورٹ میں بتایا کہ دانش اسکولز سے متعلق حکومت پنجاب کے قواعد و ضوابط پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا گیا اور راجن پور میں زائد قیمت پر ٹینڈر دینے سے خزانے کو 80 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔

مزید پڑھیں: ملتان میٹرو بس منصوبہ: کرپشن کی تحقیقات کیلئے ایس ای سی پی پردباؤ

مالیاتی امور پر تفصیلات میں کہا گیا کہ اٹک میں دانش اسکول کے تعمیراتی کام میں مروجہ طریقہ کار نہ اپنانے سے 49 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ حافظ آباد اور فیصل آباد میں اسکولوں کی تعمیر کے لیے 34 لاکھ روپے زائد ادا کیے گئے۔

اسی طرح حاصل پور میں پرفارمنس سیکیورٹی نہ لینے پر ٹھیکیدار کو 28 لاکھ روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 03, 2018 10:15pm
اگرا یک شخص روزانہ ایک لاکھ روپے خرچ کرے اور سو سال تک اس عمل کو دھرائے،مطلب روز ایک لاکھ، دوسرے دن ایک لاکھ، تیسرے دن ایک لاکھ، پورے سال ایک، ایک لاکھ اور پھر سو سال ایک لاکھ روپے خرچ کرتا رہے تو وہ سو سال میں یہ شخص 3 ارب 65 کروڑ روپے خرچ کرے گا۔ اسے سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ 300 ارب روپے کتنی بڑی رقم ہوتی ہے، ہمارے ہاں کرپشن کے ایسے بھی ملزمان موجود ہیں جن پر450 ارب روپے کی خورد برد کے الزمات لگے ہوئے ہیں۔ عوام سے ٹیکس یا پھر غیرملکی قرضہ لے کر (جس کو اس ملک میں رہنے والے ہی واپس کرینگے، بہت سے سیاستدانوں، سول و ملٹری بیورکریٹس کے اہل خانہ غیرملکی شہریت لے چکے ہیں اور ہمارے اس خوبصورت وطن کو بائے بائے کہہ دینگے) ملکی خزانہ جس طرح لوٹا گیا اور لوٹ مار جاری بھی ہے، اس پر رونا آجاتا ہے، کوئی تو ان کو روکے، ہمارے ملک میں ایک لاکھ ماہانہ کمانے والابہت اچھی زندگی گزار سکتا ہے، یہ اربوں لوٹ کر کیا کرینگے۔ دوسری بات گزشتہ روز بجلی ترسیلی کمپنیوں میں 213 ارب کے نقصان پر 4 کے سربراہان کو وفاق نے ہٹادیا، اس 300 ارب کی بے قاعدگیوں پر وفاق یا صوبائی حکومت کی جانب سے کیا کارروائی ہوئی؟