اسلام آباد: پاک چین راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت 2019 میں 10 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے منصوبے کی منظوری متوقع ہے لیکن دوسری جانب ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) نے خبردار کیا ہے کہ پلانٹ سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے قدرتی ماحول کو غیر معمولی خطرات ہوں گے۔

اے ڈی بی نے شعبہ توانائی کے حوالے سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا کہ گرین ہاؤس گیسوں کی راکھ کو سنبھالنے اور تلف کرنے کا عمل ماحول پر مزید منفی اثرات مرتب کرے گا جس سے ماضی میں موسمی تبدیلیوں کا رحجان تیزی سے جگہ بنائے گا جس کو ریورس کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

یہ پڑھیں: ہر سال پچھلے سال سے گرم کیوں؟

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 60 فیصد بجلی فوسل فیول مثلاً گیس، کوئلہ اور فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے ہماری زمین میں جو کچھ تبدیلی کی گئی ہے ان میں گلوبل وارمنگ، سمندروں کی بڑھتی سطح، گلیشیئرز کا سکڑنا، گرین لینڈ، انٹار کٹیکا اور آرکٹک میں برف کا تیزی سے پگھلنا اور پھولوں و پودوں کے کھلنے کے اوقات میں تبدیلی ہے۔

یہ سب زمین کے ماحول گرم ہونے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ روایتی ایندھن کو جلانا اور زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔

موجودہ رجحانات کو دیکھا جائے تو رواں صدی کے اختتام تک زمین کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے زمانے سے قبل کے دور کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 4 سینٹی گریڈ تک زیادہ ہوسکتا ہے جبکہ موجودہ عہد کے مقابلے میں تین سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوسکتا ہے۔

ایشین بینک کی رپورٹ میں اس امر پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ توانائی میں غیر معمولی اضافے کا دباؤ موجودہ گریڈ سسٹم، ٹرانسمیشن لائن اور سب اسٹیشن برداشت کر سکیں گے۔

رپورٹ کے مطابق اے ڈی بی نے 2005 سے 2017 کے لیے پاکستان میں توانائی کے شبعوں میں سرمایہ کاری اور دیگر کی مد میں 7 ارب 13 کروڑ ڈالر کی منظوری دے رکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مفت بجلی دینے کی شرط پر گوادر میں توانائی منصوبے کی اجازت

اے ڈی بی نے نومبر 2005 میں ہائی ڈرو پاور پلانٹ کے لیے نجی سیکٹر کو 3 کروڑ 70 لاکھ ڈالر دیئے، جس کے بعد سے 2017 تک اے ڈی بی نے 48 آپریشنز کی تصدیق کی جس میں 28 خود مختار ضمانت شدہ قرض، 11 غیر خود مختار آپریشن، 9 تکنیکی امداد پراجیکٹس، جس کی مالیت 7 ارب ڈالر تک پہنچی جبکہ 70 کروڑ ڈالر غیر خود مختار ضمانت شدہ قرض پر مشتمل ہیں۔

اس سے قبل اے ڈی بی کے جائزے کے مطابق قرض کی منظوری کے بعد پہلا کنٹریکٹ اوسط 13 ماہ بعد منظور کیا گیا۔

توانائی اور اے این آر کے منصوبوں نے زیادہ ٹائم لیا، دونوں میں اوسط وقت 18.1 ماہ اور 16.1 ماہ کا وقت لگا جبکہ 18.5 ماہ میں تین قرضے منظور کیے گئے جبکہ اس دوران 31 دسمبر 2015 تک کوئی کنٹریکٹ سائن نہیں کیا گیا۔

اے ڈی بی کے مطابق اس معاملے کی تاخیر کی وجوہات میں ڈیرائن کامیسر نہ ہونا ،متعلقہ اداروں کے پاس وسائل کی کمی ، قانونی چارہ جوئی، پراجیکٹ کے مانیٹری یونٹ بنانے میں تاخیر اور پراجیکٹ انتظامیہ کو درپیش مسائل شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ’سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبے بجلی کے بحران کا حل‘

رپورٹ میں اداروں کے درمیان معائدوں کو اہم مسئلہ بیان کیا گیا ، اس میں ذمہ داری نہ لینا ، فیصلہ سازی ، پراجیکٹ مانیٹرنگ یونٹ سے اسٹاف کی تبدیلی میں عجلت ، پراجیکٹ مینیجمنٹ کی کمزور ساخت وغیرہ شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیاکہ اے بی ڈی اور حکومت کو پائپ لائن لائن پراجیکٹس کے لیے مکمل آمادگی حاصل کرنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہے، حکومت اعلیٰ سطح پر ایک سازگار ریگو لیٹری بنائے اور کسی ابہام کے بغیر قانونی ماحول فراہم کرے، منصوبے کی منظوری کے ساتھ ساتھ مقصد کے حصول کے لیے اہم فیصلوں کا اختیار اسٹیک ہولڈرز کو دیا جائے۔


یہ خبر 04 فروری 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں