پاکستانی فلمی منظرنامے پر طلوع ہوتے نئے ستارے اور ان کے شاہکار

پاکستانی فلمی منظرنامے پر طلوع ہوتے نئے ستارے اور ان کے شاہکار

خرم سہیل

نئی صدی کی ابتداء سے اب تک یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچی کہ پاکستانی سینما اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے گا یا نہیں؟

اکیسویں صدی کے ابتدائی 17 سال میں کئی نئی فلمیں بنیں، نئے فلم ساز اور فنکار بھی اسکرین پر جلوہ گر ہوئے، لیکن تاحال یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلمی صنعت کی قسمت کا فیصلہ کیا ہوگا؟

ماضی میں پاکستانی سینما کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اچھوتے موضوعات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں کم مہارت رکھنے اور مارکیٹ محدود ہونے کے باوجود پاکستانی سینما کا برِصغیر سمیت پوری دنیا میں بول بالا تھا، جس سے اب موجودہ فلمی صنعت محروم ہے۔

دورِ حاضر کے فلم سازوں کی ساری توانائی بس فلموں کو جدید ٹیکنالوجی کے رنگ سے رنگنے میں لگی ہوئی ہے، جس کے سبب بہت ساری فلمیں ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں، جس کی بنیادی وجہ، منفرد موضوعات اور کہانیوں پر فلمیں نہ بننا ہے۔

حکومتِ پاکستان کی سرپرستی اور نجی اداروں کے اشتراک کے باوجود فلمی صنعت کی ساکھ تب ہی بحال ہوگی جب حقیقی معنوں میں فلموں کے موضوعات، کہانیوں اور اسکرپٹ پر کام کیا جائے گا۔ اس کے بعد کا مرحلہ اداکاری ہے، پھر فلم کی پوسٹ پروڈکشن اور ٹیکنالوجی سے آراستہ سہولتوں کے استعمال کا موقع ہوتا ہے، جس سے فلموں کو نکھارا جاسکتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود بنیاد تو مضبوط ہی ہونی چاہیے اور کسی بھی فلم کی بنیاد اس کی کہانی، اداکاری اور موسیقی ہوتی ہے۔ ان تینوں پہلوؤں سے فلموں کی تخلیق میں اپنا عملی کردار نبھایا جاسکتا ہے۔

کچھ برسوں سے فلمی صنعت میں نئی نسل کے فلم ساز بھی وارد ہوئے ہیں، جنہوں نے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، مگر تاحال صورتحال تسلی بخش نہیں، چاہے وہ بلال لاشاری ہوں یا سرمد کھوسٹ، فلمی صنعت کے معیار کا منظر ادھورا ہے۔ اس ماحول میں جو ایک مثبت پہلو سامنے آیا ہے، وہ جامعات میں زیرِ تعلیم نئی نسل ہے۔

یہ نسل ابھی طفلِ مکتب ہے، اس کے سامنے پاکستانی فلمی صنعت کے پرانے قصے، موجودہ تجربے موجود ہیں۔ یہ نسل بین الاقوامی فلمی صنعت اور پڑوسی ملک کی فلموں سے بھی بخوبی واقف ہے اور اب تعلیم یافتہ ہونے کے بعد یہ اس میڈیم پر دسترس حاصل کرنے کی عملی کوششیں کر رہی ہے جس کا ایک ثبوت کراچی میں قائم نجی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے میڈیا سائنسز کے طلبا ہیں، جن کے نصاب میں فلم کا مضمون بھی شامل ہے اور وہ عملی طور پر مختصر فلمیں بنا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے سب کو حیران بھی کر رہے ہیں۔

ان طلباء نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تعلیمی زندگی میں ہی عملی دور کی شروعات کریں گے۔ یہ سوچ کر انہوں نے سماجی موضوعات پر مختصر فلمیں بنانا شروع کیں۔ انہی میں سے ایک طالبہ عائشہ زبیری اور ان کے دیگر دوستوں کو خیال آیا کہ وہ ان مختصر فلموں کے فیسٹیول کا انعقاد بھی کروا سکتے ہیں۔ کچھ مہینے قبل تجرباتی طور پر انہوں نے 6 فلموں پر مشتمل ایک ’اسٹوڈنٹ ڈائریکٹر فلم فیسٹیول‘ کا اہتمام کیا، جس کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔

ابھی کچھ دن پہلے اسی فیسٹیول کو دوسرے ایڈیشن میں 10 فلموں کے ساتھ دوبارہ شروع کیا گیا۔ یہ تمام ہی فلمیں نوجوان ہدایت کاروں نے محدود وسائل میں بنائیں، جنہیں فیسٹیول میں موجود طلباء، عام شائقین اور فلم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بے حد پسند کیا۔

کراچی کے ایک ثقافتی ریسٹورینٹ میں، یہ ’اسٹوڈنٹ ڈائریکٹر فلم فیسٹیول‘ منعقد کیا گیا۔ اس میں دکھائی گئی 10 فلموں میں ’انسانیت کی تلاش‘، ’بنت‘، ’ابن آدم‘، ’ان کہی‘، ’ایدھی‘، ’لمبی رات‘، ’بالکونی کی کہانیاں‘، ’میل‘، ’مدینے والا جہاز‘، ’جسی پپی دا اخروٹ‘ شامل ہیں۔ اس موقع پر انجم چندانہ اور واصف برنی موجود تھے جو فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ تھیٹر کی تعلیم و تربیت سے وابستہ ہیں۔

ہولی وڈ میں کام کرنے والی پاکستانی اداکارہ سمعیہ خان سمیت پاکستان کے ابھرتے ہوئے نوجوان اداکار اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس سے تعلیم یافتہ علی رضوی بھی موجود تھے۔ کئی دیگر معروف شخصیات بھی اس فیسٹیول کا حصہ تھیں۔ راقم بھی اس فلمی میلے کا حصہ بنا، ان فلموں کو دیکھا اور مستقبل کے فلم سازوں سے گفت و شنید کی۔

آئیے فیسٹیول میں پیش کی جانے والی فلموں پر ایک جھلک ڈالتے ہیں۔

1: بِنت

اس فلمی میلے میں شامل پہلی فلم ’بنت‘ کے ہدایت کار وقاص قمر تھے۔ اس فلم کی کہانی ایک ادھیڑ عمر شخص کے گرد گھومتی ہے، جو غریب ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹی کی خواہشیں پوری نہیں کرسکتا، جس کی وجہ سے وہ ناجائز طریقوں سے پیسہ کماتا ہے اور کئی جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن چونکہ وہ اپنی بیٹی کی خواہشات پوری کرنے کے قابل ہوجاتا ہے، اس لیے اپنے کئے ہوئے جرائم پر نادم ہونے کے باوجود مطمئن ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی خواہشیں پوری کرسکا۔

بِنت کا آفیشل پوسٹر
بِنت کا آفیشل پوسٹر

2: ابنِ آدم

دوسری فلم ’ابنِ آدم‘ کے ہدایت کار سمیع وقار تھے۔ یہ فلم ایک ایسے وکیل کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے، جس نے اپنے پیشے کے ذریعے مظلوموں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا۔ ایسے لوگ جن کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی کوئی بڑی سفارش۔ یہ لوگ انصاف حاصل کرنے سے محروم تھے، لہٰذا اس وکیل نے اپنے پیشے کو ایسے لوگوں کی مدد کے لیے وقف کردیا۔ اس طرز کی زندگی بسر کرتے ہوئے وہ کن غیر معمولی اور کسی حد تک غیر فطری حالات سے گزرتا ہے، اس کے جنون اور خبطی پن کے ساتھ ساتھ نیکی کے جذبے کو فلم کے پردے پر دکھایا گیا ہے۔

ابنِ آدم کا آفیشل پوسٹر
ابنِ آدم کا آفیشل پوسٹر

3: ان کہی

تیسری فلم ’ان کہی‘ کے ہدایت کار عمران سیاس تھے۔ یہ ایک رومانوی فلم تھی جس میں رشتوں کے درمیان پڑنے والی دراڑوں کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح جب محبت بھرے رشتوں میں خود غرضی اور انا کے رویے مداخلت کرتے ہیں تو خلوص اور محبت پر زد پڑتی ہے، لیکن اگر مثبت سوچ کے ساتھ زندگی کو بسر کیا جائے تو پھر وہی تاریکیاں روشنیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس کہانی کا اتار چڑھاؤ بھی انہیں 2 سمتوں میں ہے کہ کس طرح منفی اور مثبت جذبے ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ان کہی کا آفیشل پوسٹر
ان کہی کا آفیشل پوسٹر

4: ایدھی

چوتھی فلم ’ایدھی‘ کے ہدایت کار طحٰہ احمد تھے۔ فلم کے نام سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ فلم پاکستان میں سماجی خدمات کے تناظر میں معروف شخصیت عبدالستار ایدھی کے بارے میں تھی۔ وہ ایک عام انسان سے انتہائی دردمند اور سوچنے والے انسان کیسے بنے؟ انہوں نے اپنی زندگی کی جدوجہد کس طرح کی؟ کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ بالخصوص کم عمری کے زمانے میں زکوٰۃ کے پیسے حاصل کرکے عوامی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے کا احساس ان میں کیسے پیدا ہوا؟ ان تمام احساسات اور کیفیات کو فلم کی عکس بندی میں نمایاں کیا گیا ہے۔

ایدھی کا آفیشل پوسٹر
ایدھی کا آفیشل پوسٹر

5: میل

پانچویں فلم ’میل‘ کے ہدایت کار کلیات مسرور تھے۔ یہ تجسس پر مبنی ایک نفسیاتی تانے بانے پر بنی ہوئی کہانی ہے، جس میں کہانی کی مرکزی خاتون کردار، مرد کردار کے ہاتھوں ذہنی اور جسمانی طور پر یرغمال ہوجاتی ہے، پھر ایک دن اچانک اس شخص کے گھر سے اس کو کچھ ایسے شواہد ملتے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ حقیقت جان جاتی ہے۔ سچائی جاننے کے بعد وہ اس گھر سے فرار ہونے کی کوشش کرتی ہے اور اس صورتحال میں آخرکار ایک پولیس والا اس کی مدد کو آتا ہے، جس کی بدولت اسے قید سے رہائی ملتی ہے۔

میل کا آفیشل پوسٹر
میل کا آفیشل پوسٹر

4: لمبی رات

چھٹی فلم ’لمبی رات‘ کے ہدایت کار رامیل احسن تھے اور یہ ایک مزاحیہ فلم تھی۔ یہ فلم ایک مزاحیہ کہانی کے ساتھ عکس بند کی گئی ہے، جس میں ایک نئے نویلے دولہا دلہن کی شادی کی پہلی رات دکھائی گئی ہے کہ کس طرح دوستوں اور خاندان والوں کی شرارتوں کی وجہ سے ان دونوں کو مضحکہ خیز صورتحال کا سامنا رہتا ہے اور وہ تمام رات اسی کے تدارک میں گزار دیتے ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں بنائی گئی اس فلم میں شادی شدہ جوڑے کو محبت بھرے اور شریر انداز میں تنگ کرنے کا قصہ ہے، جس کو اس فلم کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔

لمبی رات کا آفیشل پوسٹر
لمبی رات کا آفیشل پوسٹر

7: انسانیت کی تلاش

ساتویں فلم ’انسانیت کی تلاش‘ کے ہدایت کار حسیب جہانگیر تھے۔ یہ کہانی نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے ایسے نئے پاکستانی فلم ساز کی ہے، جو یورپ کے کئی ممالک میں تن تنہا سفر کرتا ہے۔ اس کے پاس سفر کرنے کے لیے رقم اور کھانے پینے کے لیے سامان نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کہیں قیام کرسکتا ہے۔ ان حالات میں وہ ان ممالک کا سفر کرتا ہے اور اپنی طے شدہ منزل تک پہنچتا ہے۔ اس سفر میں اس کو بہت سارے اچھے بُرے لوگ ملتے ہیں، جن کے ذریعے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں اچھائی اور بُرائی کا تناسب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم چیز، جس کو فلم ساز نے بیان کرنے کی کوشش کی، وہ اپنے ملک کی مثبت انداز میں نمائندگی کرنا ہے۔ یہ ایک مشکل اور کٹھن مرحلے سے گزر کر بنائی گئی متاثر کن فلم ہے۔

انسانیت کی تلاش کا آفیشل پوسٹر
انسانیت کی تلاش کا آفیشل پوسٹر

8: بالکونی کی کہانیاں

آٹھویں فلم ’بالکونی کی کہانیاں‘ کی ہدایت کارہ علینہ فاروقی تھیں۔ یہ کہانی ایک ایسے کہانی نویس کی ہے، جو بے روزگار ہوتا ہے اور گھر میں رہتے ہوئے اپنا زیادہ وقت بالکونی میں گزارتا ہے۔ اس فارغ وقت میں وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی حرکات و سکنات اور معاملات سے کہانیاں کشید کرتا ہے۔ اسی صورتحال میں ایک دن وہ اپنی بالکونی میں پڑوسی کی گفتگو سن لیتا ہے، جو کافی پُراسرار ہوتی ہے۔ اس سے کہانی میں ایک کلائمکس بنتا ہے۔ سماج کے نچلے طبقات کی عکاسی کرتی اس فلم میں کئی کہانیاں ملا کر ایک کہانی کی تشکیل ہوئی ہے۔

بالکونی کی کہانیاں کا آفیشل پوسٹر
بالکونی کی کہانیاں کا آفیشل پوسٹر

9: مدینے والا جہاز

نویں فلم ’مدینے والا جہاز‘ کے ہدایت کار علی گھانچی تھے۔ یہ ایک ایسے باپ بیٹے کی کہانی ہے، جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے دیہی علاقے سے ایک بڑے شہر کا رخ کرتے ہیں اور وہاں کی زندگی میں مگن بھی ہوجاتے ہیں، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کو احساس ہوتا ہے کہ دیہی زندگی زیادہ بہتر تھی اور وہ جو خواب لے کر شہر آئے تھے، وہ پورے نہیں ہوسکے، کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا ہو، جس طرح اکثریت مادی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے اس طرح سوچتی ہے، مگر اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

مدینے والا جہاز کا آفیشل پوسٹر
مدینے والا جہاز کا آفیشل پوسٹر

10: جسی پپی دا اخروٹ

دسویں فلم ’جسی پپی دا اخروٹ‘ کے ہدایت کار علی خرم راٹھور تھے۔ یہ کہانی بنیادی طور پر 2 انڈین سکھوں اور ایک پاکستانی پٹھان کے بارے میں ہے کہ کس طرح دونوں سکھ بارڈر پار کرکے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، پھر ان کی دوستی ایک پاکستانی پٹھان سے ہوجاتی ہے، جس کی مدد سے یہ واپس سرحد پار کرکے اپنے ملک واپس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب مزاحیہ انداز میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں پاکستان میں غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ اپنے ملک واپس جاسکیں۔ اسی جدوجہد کے تناظر میں کہانی کو فلمایا گیا ہے۔

جسی پپی دا اخروٹ کا آفیشل پوسٹر
جسی پپی دا اخروٹ کا آفیشل پوسٹر

ان فلموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے یہ فلم ساز اپنے کام کی باریکی کو سمجھ رہے ہیں۔ ہرچند کہ ان کی فلموں میں کئی جگہ بہتری کی گنجائش ہے مگر طالب علم ہوتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق ایسی فلمیں بنانا یہ ظاہر کرتا ہے۔

فلم کے شعبے میں ان نوجوان فلم سازوں کی توجہ پوری طرح اپنی منزل پر مرکوز ہے۔ تعلیم اور تربیت کے مراحل سے گزر کر جب یہ تجربے اور کشادہ تخلیق کے دور میں داخل ہوں گے تو اپنی فلموں سے فلم بینوں کے دلوں کو چھو لیں گے۔ یہ پاکستانی فلمی صنعت کا حقیقی مستقبل ہے، جن پر فلمی صنعت انحصار کرے گی۔

امید ہے کہ جامعات اور سرکار کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ بھی اس طرح کے طلباء کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ کوئی شک نہیں کہ ان میں سے اکثر فلموں نے دل کو چھو لیا اور یہی ان نوجوان فلم سازوں کی پہلی کامیابی ہے۔ مستقبل میں یہ ڈھیروں کامیابیاں سمیٹیں گے کیونکہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔


بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔