پشاور: خیبرپختونخوا کے خیبرمیڈیکل کالج میں ڈی این اے ٹیسٹ لیب کی افتتاحی تقریب میں ماہرین نے کہا ہے کہ پولیس کو جائے وقوع سے شواہد اکھٹے کرنے کے لیے تجربہ کار اہلکاروں کی ضرورت ہے۔

صوبائی سیکریٹری صحت عابد مجید نے صوبے کی پہلی ڈی این اے ٹیسٹ لیبارٹری کا افتتاح کیا، اس موقع پر انہوں نے یقین دلایا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبے کے لوگوں کے لیے خدمات کا سلسلہ بے لوث جاری رہے گا اور لیب انصاف کی فراہمی میں موثر کردار ادا کرے گی۔

یہ پڑھیں: ریپ کیس: ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل جمع

انہوں نے واضح کیا کہ فنڈز کی کوئی کمی نہیں تاہم ڈی این اے لیب دہشت گردی اور دیگر جرائم سے متعلق تحقیقات کے لیے جدید تقاضوں کو پورا کرے گی۔

سیکریٹری صحت نے مزید بتایا کہ ‘ضلعی سطح پر میڈیکو لیگل شعبوں کو اپ گریڈ کرنے کا عمل جاری ہے تاکہ سائنسی بنیادیوں پر تحقیقات کی جائیں، جس سے پولیس اور عدالتوں کو ملزمان کی نشاندہی کے لیے مدد ملے گی۔

عابد مجید نے یقین دلایا کہ جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لیب کے اسٹاف کو سفری سہولیات میسر ہوں گی۔

کے ایم سی ڈین پروفیسر نور الانعام نے کہا کہ ڈی این اے لیب سے ناصرف تحقیقاتی نوعیت کے معاملے نمٹائے جائیں گے بلکہ تدریسی فوائد بھی حاصل کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: ایک شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ مثبت آنے کی متضاد اطلاعات

ان کا کہنا تھا کہ ‘نوجوانوں کو ڈی این اے لیب میں تکنیکی بنیادیوں پر تربیت دی جائے گی تاکہ وہ دیگر صوبوں میں جاکر پیشہ وارانہ خدمات پیش کر سکیں۔

اس موقع پر شعبہ فرانزک میڈیسن اینڈ ٹاکسی کالوجی کے چیئرمین پروفیسر حکیم خان آفریدی نے کہا کہ ‘ہمیں ڈی این اے ٹیسٹ لیب میں مکمل سہولیات حاصل ہیں جس کے بعد فرانزک ٹیسٹ کے لیے کسی دوسرے صوبے میں شواہد بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑے گی’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘قتل، اقدامِ قتل، عمر کا تعین، جنسی طور پر ہراساں سمیت دیگر جرائم سے متعلق تقریباً 12 سو سیمپلز سالانہ وصول ہوتے ہیں تاہم اب ڈی این اے ٹیسٹ لیب میں سارے فرانزک ٹیسٹ کرنے ممکن ہو سکیں گے’۔

افتتاحی تقریب میں دیگر ماہرین نے مطالبہ کیا کہ جائے وقوع کو محفوظ بنانے اور شواہد اکھٹے کرنے سے متعلق ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس کا ’ملزم‘ ڈی این اے ٹیسٹ میں بے قصور ثابت

انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس میں اہلکاروں کی تکینکی صلاحیت میں کمی کے باعث تحقیقاتی عمل میں درشواری ہوتی ہے کیونکہ بیشتر مرتبہ غیر شعوری طور پر شواہد مٹ جاتے ہیں یا پھر ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ماہرین نے زور دیا کہ پولیس اور فرانزک ماہرین کے مابین مربوط رابطہ کاری کا نظام ہونا چاہیے جس کی بدولت غیرمعمولی نتائج حاصل ہو سکیں گے۔


یہ خبر 07 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں