اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سانحہ تربت ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بلوچستان حکومت کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو دفتر بنانے کی سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تربت میں 20 افراد کے قتل پر سانحہ تربت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ تربت میں ہلاکتیں دہشت گردی کی وجہ سے ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ لبریشن موومنٹ کے ہاتھ ہمارے بچے چڑھ گئے تھے اور کلبھوشن یادیو کا نیٹ ورک بھی بلوچستان میں کام کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ تربت ازخود نوٹس: انسانی اسمگلنگ سے متعلق نئی رپورٹ طلب

عدالت نے بلوچستان حکومت کو ایف آئی اے کو دفاتر بنانے کی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

اس سے قبل 14 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سانحہ تربت پر ازخود نوٹس کیس میں ڈی جی ایف آئی اے اور چیف سیکریٹری بلوچستان سے انسانی اسمگلنگ سے متعلق تفصیلات پر مبنی نئی رپورٹ طلب کرلیں۔

خیال رہے کہ 15 نومبر کو بلوچستان کے علاقے تربت میں واقعہ بلیدہ گورک سے 15 افراد کی گولیاں لگی لاشیں برآمد ہوئیں تھیں جن کے بارے میں سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ مقتولین کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: تربت سے مزید 5 لاشیں بر آمد

واضح رہے کہ مذکورہ واقعے کے 3 روز بعد 18 نومبر کو تربت ہی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع پہاڑی علاقے تاجبان میں گولیوں سے چھلنی مزید 5 نامعلوم لاشیں برآمد ہوئیں تھیں۔

بعدِ ازاں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ان ہلاکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں