اسلام آباد: پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے احتساب عدالت میں دائر ریفرنس کی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردی گئی۔

سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر کے وفات پر پاکستان بار کونسل کی جانب سے سوگ کے اعلان کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کی گئی اور استغاثہ کے گواہان کے بیانات بھی قلمبند نہیں کیے جاسکے۔

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرا دی۔

امجد پرویز کے ذریعے جمع کروائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبیعت ناساز ہے، اور ابھی ان کے اہم ٹیسٹ بھی ہونے ہیں۔

مزید پڑھیں: مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کا فیصلہ چیلنج کردیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ کلثوم نواز کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ اس موقع پر شوہر کی موجودگی ضروری ہے جس کی وجہ سے نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر لندن جائیں گے لہٰذا تینوں ملزمان کو 19 فروری سے دو ہفتے کے لیے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

عدالت نے استغاثہ کے چار گواہان کو بھی دوبارہ طلب کرکے 15 فروری کو پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کردیا گیا اور اس پر بحث کے لیے 15 فروری کی ہی تاریخ مقرر کی ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے وڈیو لِنک کے ذریعے غیر ملکی گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے 22 فروری کی تاریخ مقرر کردی۔

ضمنی ریفرنس سمجھ سے بالاتر ہیں، نواز شریف

احتساب عدالت کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان سے احتساب کے نام انتقام لیا جارہا ہے، وقفے وقفے جو ضمنی ریفرنس دائر کیے جارہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف جو انتقام چل رہا ہے وہ اس سے ڈرتے نہیں ہیں اور اس انتقام کا سامنا کر رہے ہیں۔

سابق صدر جنر (ر) پرویز مشرف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ جو ہم سے انتقام لے رہے ہیں وہ اس سے بھی انتقام لیں جس نے ملک میں دو مرتبہ آئین توڑا اور جج صاحبان کو گرفتار کروایا کیونکہ اس کے خلاف فرضی مقدمہ چلایا، اسے گرفتار تک نہیں کیا گیا اور اسے ملک سے باہر بھی جانے دے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ضمنی ریفرنسز: نواز شریف کا نیب کے سامنے پیشی سے گریز

انہوں نے کہا کہ آئین توڑنے والوں کو پکڑنے اور ان تک پہنچنے میں انتقام لینے والوں کے پَر جلتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’مخالفین تب ہی سرخ رو ہوتے ہیں جب نواز شریف کو سزا ہوتی ہے، نواز شریف کو تو الزام نہ ہونے پر سزا نہیں ہوگی تو مخالفین سوچتے ہیں کہ ان کے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ لوگ ان کے خلاف جو بھی کر رہے ہیں اس کا جواب عوام دے رہی ہے، آپ نے کل دیکھا کہ لودھرا میں کیا ہوا، یہ نواز شریف کے خلاف ہونے والے انتقام کا جواب ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام نواز شریف کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور میں عوام کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ اب عوام کا ردِ عمل سامنے آرہا ہے اور لودھراں میں اس کا عملی نمونہ بھی سامنا آیا ہے۔

ضمنی ریفرنسز میں تاخیر پر ڈی جی نیب سے وضاحت طلب

نیب نے احتساب عدالت کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں دو ضمنی ریفرنسز دائر کرنے سے متعلق آگاہ کر دیا۔

ضمنی ریفرنسز دائر کرنے میں مسلسل تاخیر پر احتساب عدالت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی ریفرنسز میں نیب متعدد مرتبہ التواء مانگ چکی ہے۔

بعدِ ازاں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ڈی جی نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ضمنی ریفرنسز میں تاخیر پر وضاحت طلب کرلی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے جاری نوٹس میں لکھا گیا کہ ڈی جی نیب واضح کریں ضمنی ریفرنسز تاحال کیوں دائر نہیں کئے جاسکے۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ظافر خان نے کہا کہ ابھی تک ضمنی ریفرنسز دائرنہیں ہوئے اور ان میں تاخیر کی ذمہ دار نیب پر ہے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور العزیزیہ سٹیل ملز میں ضمنی ریفرنسز دائر کرنے کی ریجنل بورڈ میٹنگ میں منظوری دی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف دو نئے ضمنی ریفرنس تیار ہیں، جلد دائر کیے جائیں گے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنس: احتساب عدالت میں ہائیکورٹ کا حکم نامہ پیش

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں