کراچی سپر ہائی وے کے قریب 3 دن قبل لاپتہ ہونے والے شخص کی لاش بر آمد ہونے کے بعد مقتول کے رشتہ دار اور برادری کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا۔

سائٹ سپر ہائی وے پولیس کے ایس ایچ او سہیل خان نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ روز 34 سالہ موسیٰ خان کی تشدد زدہ لاش ناردرن بائی پاس کے قریب متروک کیے گئے پولیس چیک پوسٹ کے قریب سے برآمد کی گئی تھی۔

ایس ایچ او نے مقتول کے والد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کے مطابق موسیٰ اور اس کے بھائی عیسیٰ خان کو گڈاپ ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ سے 3 روز قبل سادہ لباس میں افراد نے اغواء کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتول کے اہلخانہ نے ان افراد کی گمشدگی کے حوالے سے پولیس میں شکایت درج نہیں کرائی تھی بلکہ ایک مقامی عدالت سے معاملے پر رجوع کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے پٹیشن کی سنوائی سے قبل ہی موسیٰ کی لاش بر آمد کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے مقتول کے والد کا بیان ریکارڈ کرلیا ہے اور موسیٰ کے قتل اور اس کے دو بھائیوں کے اغواء پر ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 فروری تک توسیع

بعد ازاں موسیٰ کو سپر ہائی وے پر واقع خلجی گوٹھ کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا جس کے بعد مقتول کے رشتہ دار اور آقا خیل قبیلے کے افراد نے ٹول پلازہ کے قریب احتجاج کیا۔

احتجاج کے دوران مظاہرین نے موسیٰ کے ماورائے عدالت قتل اور اس کے دو بھائیوں کی بازیابی کے لیے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔

مقتول کے والد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کی کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے قتل کیے گئے بیٹے کو اس سے قبل بھی جعلی منشیات کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں باعزت بری کردیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق دونوں بھائی عیسیٰ اور موسیٰ جامعہ کلاتھ مارکیٹ میں کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے۔

احتجاجی مظاہرے کرنے والے قبائلیوں نے خبر دار کیا کہ اگر 24 گھنٹوں کے دوران ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو وہ احتجاجاً سپر ہائی وے بند کردیں گے۔

دریں اثناء سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) عدیل حسین نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے موسیٰ کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بیان کو مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ یہ واقعہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے واقعے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس لیے جانے لے ایک ماہ بعد سامنے آیا۔

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو 2 چشم دید گواہوں نے شناخت کرلیا

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کا از خود نوٹس لیا جس پر سندھ پولیس کی تین رکنی کمیٹی نے 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں