سینیٹرفرحت اللہ بابر نے پاک فوج کے اضافی دستے کو سعودی عرب میں تعنات کیے جانے پر خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری فوج یمن جنگ میں بھی استعمال ہوسکتی ہے۔

سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے وزیر دفاع خرم دستگیر کی جانب سے معاملے پر جواب نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کو اگر سعودی اور یمن بارڈر پر تعینات کیا گیا تو آپ بہت جلد سنیں گے کہ ہماری فوج یمن چلی گئی ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پر آنی چاہیے کہ پاک فوج کے دستے کو سعودی سرحد میں تعینات کیا جائے گا یا یمن میں تنازع کا حصہ بننے کے لیے بھیجا جائے گا۔

مزید پڑھیں: پاک فوج کا دستہ سعودی عرب میں تعینات ہوگا، آئی ایس پی آر

انھوں نے کہا کہ آپ بہت جلد یہ خبر سنیں گے کہ پاکستان کی مسلح افواج یمن پہنچ گئی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی تباہ کن ہوگا۔

سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی نے بھی وفاقی حکومت کو پارلیمنٹ سے معلومات چھپانے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سیاست دان صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، کیا یہی پارلیمنٹ کی بالا دستی ہے؟

خیال رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران وزیر دفاع خرم دستگیر نے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے سوالات پر کہا تھا کہ سعودی عرب میں کہاں کہاں فوج تعینات ہوگی اور آپریشنل تفصیلات سے متعلق نہ پوچھا جائے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سوال کیا تھا کہ وزیر اعظم اور آپ اس فیصلے سے آگاہ تھے مگر اس پر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور پارلیمنٹ کو ایک پریس ریلیز سے اس فیصلے کا پتا چلا۔

وزیر دفاع نے وضاحتی بیان پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان غیرجانبدار ملک ہے اور یہاں دس ہزار سعودی فوجیوں کی تربیت کی گئی ہے جبکہ میں اس فیصلے سے متعلق آگاہ تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ہمارے 1 ہزار 6 سو فوجی اہلکار پہلے سے سعودی عرب میں موجود ہیں اور مزید فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے کی منظوری وزیر اعظم نے دی ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے وزیر دفاع کے بیان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں پاک فوج کی تعیناتی: سینیٹ میں وزیردفاع کا بیان مسترد

واضح رہے کہ پاک فوج کے بیان کے مطابق سعودی عرب میں فوجی دستے کی تعیناتی دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کے تحت کی جارہی ہے۔

پاک فوج کی جانب سے یہ اعلان سعودی سفیر کموڈور نواف سعید المالکی کی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

یاد رہے کہ سعودی عرب پاکستان سے 2015 میں یمن جنگ کے آغاز کے بعد سے فوجی دستے کا مطالبہ کر رہا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے یمن تنازع پر غیر جانبداری کی قرار داد منظور ہونے کے بعد سے مزید پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں