فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے منی لانڈرنگ کیس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے دوسرے گروپ کے بھی 10 پارلیمنٹرینز کو طلب کرنے کے لیے نوٹس جاری کردیا۔

ڈان نیوز کو ملنے والے نوٹس کی کاپی کے مطابق یہ نوٹس ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے جاری کیا اور ایم کیو ایم کے تمام پارلیمنٹرین کو 2 مارچ کو ایف آئی اے ہیڈکوارٹر میں پیش ہونے کی ہدایت کردی گئی۔

ایف آئی اے کے جاری نوٹس کے مطابق سینیٹر فروغ نسیم، سابق رکن قومی اسمبلی عبدالقادر خان زادہ کو بھی طلب کیا گیا ہے جبکہ دیگر ایم کیو ایم اراکین میں سینیٹر طاہر مشہدی، سینیٹر بابر غوری، ایم این اے رشید گوڈیل بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس: تفتیش کیلئے فاروق ستار سمیت دیگر ایم کیو ایم رہنما طلب

خیال رہے کہ اس سے قبل ایف آئی اے نے ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ان کے گروپ کے 10 پارلیمنٹرینز کو بھی طلبی کے نوٹس جاری کیے تھے تاہم ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کوئی پارلیمنٹرینز ایف آئی اے میں پیش نہیں ہوا۔

15 فروری 2018 کو ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین کی منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے 10 سینیٹرز اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔

ایف آئی اے نے جن ارکان کو طلب کیا ہے ان میں ڈاکٹر فاروق ستار، سفیان یوسف، عبدالرؤف صدیقی، سینیٹر احمد علی، ایم این اے ساجد احمد، ایم پی اے عدنان احمد، ریحان ظفر اور محمد معین عامر پیرزادہ شامل ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق فاروق ستار نے 2 کروڑ 60 لاکھ، سفیان یوسف 2 کروڑ 6 لاکھ 39 ہزار 5 سو، معین عامر پیرزادہ نے 3 کروڑ 24 لاکھ 4 ہزار 5 سو، ریحان ظفر نے 3 کروڑ 52 لاکھ 2 ہزار، ڈاکٹر صغیر احمد نے 3 کروڑ 56 لاکھ 6 ہزار 5 سو، عدنان احمد نے 3 کروڑ 6 لاکھ 70 ہزار، عبدالرؤف صدیقی 3 کروڑ 8 لاکھ 20 ہزار، ساجد احمد نے 4 کروڑ 16 لاکھ 4 ہزار، محمد عادل صدیقی 7 کروڑ 8 لاکھ 52 ہزار اور سینیٹر احمد علی نے 2 کروڑ روپے خدمت خلق فاونڈیشن میں جمع کرائے تھے۔

تمام افراد نے یہ رقوم لندن سیکڑیٹریٹ بھجوائیں تھی۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر 2017 کو ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل نے سر فراز مرچنٹ کی مدعیت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کے خلاف منی لانڈنگ کا مقدمہ

سرفراز مرچنٹ کے الزامات پر ایف آئی اے نے الطاف حسین کے خلاف مقدمہ نمبر 5/2017 درج کیا، جس میں ان کے ساتھیوں اور مختلف کمپنیوں کو نامزد کیا گیا، جس میں سینٹر احمد علی، فرینڈز کنسٹرکشن، نٹ ویئر کمپنی اور دیگر ذرائع سے منی لانڈرنگ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

مقدمے میں مزید الزام لگایا گیا تھا کہ بابرغوری، ارشدوہرہ، خواجہ سہیل، اور خواجہ ریحان بھی منی لانڈرنگ میں الطاف حسین کے مدد گار تھے۔

سرفراز مرچنٹ نے رائل کراؤن پولیس کے حوالے سے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ 2009 سے 2015 کے دوران مختلف ذرائع سے الطاف حسین کے ذاتی اکاؤنٹس اور لندن میں موجود ان کے ساتھیوں کے اکاؤٹنس میں رقم منتقل کی جاتی رہیں۔

اس سے قبل 25 جنوری 2017 کو حکومت پاکستان نے برطانیہ سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ مقدمات ختم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کردی تھی۔

مزید پڑھیں: بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کےخلاف منی لانڈرنگ کیس ختم

ذرائع کے مطابق اس حوالے سے حکومت پاکستان نے برطانوی حکومت کو مراسلہ بھی بھیجا ہے اور برطانوی حکام سے الطاف حسین کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات بھی مانگ لی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجے جانے والے مراسلے میں حکومت برطانیہ کی جانب سے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ختم کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

یاد رہے کہ 13 اکتوبر 2016 اسکاٹ لینڈ یارڈ نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس ختم کردیا تھا۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ حکام کے مطابق یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ جو پیسے بانی متحدہ کے گھر سے ملے وہ غیر قانونی طریقے سے برطانیہ لائے گئے یا انہیں کسی غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جانا تھا جبکہ کیس میں 6 افراد گرفتار اور 28 کے انٹرویوز کیے گئے۔

اس سے قبل سال 2013 میں لندن پولیس نے الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں چھاپے مارے تھے۔

الطاف حسین کے گھر سے مبینہ طور پر بھاری مقدار میں نقدی برآمد ہوئی تھی جسے 'پروسیڈ آف کرائم ایکٹ' کے تحت قبضے میں لے لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کیسز پر نظر ثانی کی درخواست

اس کے بعد لندن پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے علاوہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کردی تھی۔

جون 2014 میں الطاف حسین کو برطانیہ میں پولیس نے تحقیقات کے لیے حراست میں لیا تھا، تاہم انہیں چند روز بعد رہا کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں کیس کی تحقیقات کے دوران ان کی ضمانت میں کئی بار توسیع کی گئی۔

رواں سال فروری میں برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین اور دیگر افراد کے خلاف فی الحال فرد جرم عائد کرنے کے لیے شہادتیں ناکافی ہیں۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں گرین لین کے علاقے میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ کام سے گھر کی طرف آرہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں