کراچی: سندھ پولیس نے انسدادِ دہشت گردی عدالت کے انتظامی جج کو بتایا ہے کہ نقیب اللہ محسود سمیت دیگر چھ افراد کو ماورائے عدالت قتل کیے جانے کے بعد سابق سینئر پرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کی ٹیم نے جھوٹے مقدمات میں شامل کیا۔

نقیب اللہ محسود قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے ایک افسر ایس ایس پی عابد قائم خانی نے جج کو بتایا کہ صوبائی محکمہ داخلہ کو درخواست لکھی گئی ہے جس میں نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے والی پولیس ٹیم کے خلاف مقتولین پر ہتھیاروں کے غیر قانونی الزام عائد کرنے پر سندھ آرمز ایکٹ 2013 کے تحت مقدمہ دائر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

تفتیشی افسر نے’بی کلاس‘ تحقیقاتی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروائی جس میں نقیب اللہ محسود، محمد صابر، نظر جان اور محمد اسحٰق کے خلاف پانچ مقدمات کا ذکر ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ تھانہ شاہد لطیف ٹاؤن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) امان اللہ مروت نے بیت اللہ محسود سمیت دیگر تین افراد کے خلاف اقدامِ قتل کی دفعات سمیت انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے مطابق بھی مقدمات درج کیے تھے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں محسود قبائل کے دھرنے کا متحرک نوجوان قتل

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے مقتولین پر ان کے پاس سے مبینہ طور پر پستول اور دستی بم کے برآمد ہونے پر سندھ آرمز ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج کیا تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ مدعی کو اس حوالے سے نوٹسز بھی جاری کر دیے ہیں تاہم وہ ان کا جواب دینے کے بجائے کہیں روپوش ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے ایس ایچ او نے اپنی ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ وہ اپنی پولیس ٹیم کے ساتھ معمول کے گشت پر تھے کہ انہیں یہ خفیہ اطلاع موصول ہوئی کے عثمان خاصخیلی گوٹھ کے ایک پولٹری فارم میں کالعدم داعش اور لشکرِ جھنگوی کے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔

تفتیشی افسر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس ایچ او نے ایف آئی آر میں بتایا کہ انہوں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تلاشی کا عمل شروع کردیا اور اس دوران دہشت گردوں نے ان پر فائرنگ کردی اور دستی بموں سے حملہ بھی کیا تاہم پولیس کی جوابی فائرنگ میں تمام حملہ آور مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جب تفتیشی ٹیم نے جائے وقوع کا دورہ کیا تو انہیں وہاں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جبکہ قتل کے بعد وہاں گولیوں کے خالی خول پھینکے گئے تھے اور جائے وقوع سے دیواروں پو گولیوں کے نشان یا پھر دستی بم کے پھٹنے کے شواہد نہیں ملے تھے۔

تحقیقات کی بنیاد پر تفتیشی افسر کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ راؤ انوار کی سربراہی میں ایک مخصوص ٹیم نے جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جہاں سابق ایس ایس پی ملیر بھی موجود تھے۔

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کی جانب سے نقیب اللہ محسود کا جو مجرمانہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے وہ نقیب اللہ محسود کا نہیں تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب تک راؤ انوار ملیر کے ایس ایس پی تعینات رہے تب تک وہاں ہونے والے پولیس انکاؤنٹر کے گواہان میں شدید خوف تھا اور وہ پولیس حکام کے خلاف ہونے والی انکوائری میں تعاون کرنے سے خوف زدہ رہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس: گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو 2 چشم دید گواہوں نے شناخت کرلیا

انہوں نے تجویز پیش کی کہ سندھ وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2013 کے تحت گواہان کو سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے، جبکہ ایڈشنل انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک اور تحقیقاتی ٹیم کو اس حوالے سے تفتیش کرنی چاہیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے 3 جنوری کو نقیب اللہ محسود کو کراچی کے علاقے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ایک چائے کے ہوٹل سے 2 دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا تاہم کچھ روز بعد ان کے دوستوں کو رہا کر دیا گیا تھا جبکہ نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن میں ماورائے قتل کردیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے انتظامی جج نے رپورٹ کو اے ٹی سی کی عدالت نمبر 2 میں بھیج دیا اور اس پر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔


یہ خبر 25 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں