اسلام آباد: پاکستان میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں صفنی مساوات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ خواتین کو پبلک سروس کے شعبے میں تعصب یا درجہ بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایسے منصوبے تشکیل دے جس سے صفنی مساوات کی حوصلہ افزائی ہو۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کو محدود دائرے میں رکھنے کی سوچ غالب ہے جس کے سدباب کے لیے سماجی سطح پر سنجیدگی سے کام کی ضرورت ہے تاکہ شعبہ پبلک سروس سے متعلق اپنے فیصلے خود کر سکیں۔

یہ پڑھیں: سعودی خواتین کو پہلے اس کی اجازت نہ تھی....

جاری کردہ رپورٹ میں دوسرا نقطہ اٹھایا گیا کہ خواتین کی زندگی کی سماجی اقتصادی حقیقتوں کا جائزہ لے کر پالیسی تشکیل دے کر نافذ العمل بنایا جائے تاکہ خواتین کی پبلک سروس میں شمولیت کے حوالے سے فیصلے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

اقوام متحدہ کے مطابق سول سروس میں صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ ضروری ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا کہ وزارت ترقیِ نسواں سے عدم اطمیان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ خواتین کے لیے کوئی قائمہ کمیٹی نہیں اور نا ہی انہیں مختلف مواقع پر متحرک رکھنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے تاہم قانون سازی کے ذریعے پبلک سروس کی سطح پر صنفی مساوات کا فروغ دینا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ’خواتین سے متعلق مردوں کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے‘

اقوام متحدہ کے مطابق پبلک سروس امور میں خواتین کی شمولیت اور فیصلوں سے مجموعی طور پر خواتین کے لیے بہتری کے امکانات روشن ہوں گے۔

’صنفی مساوات کے ایجنڈے‘ سے مراد خواتین کو مردوں کے مقابلے میں برابری سطح پر فیصلے لینے کا حق دیا جانا ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا کہ خصوصی طور پر مردوں کے رویوں میں تبدیلی کے لیے مسلسل رابطہ کاری اور متحرک ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں خواتین میں غذائی قلت مردوں کے مقابلے 11 فیصد کم

سرول سروس میں خواتین کے نیٹ ورک کو متعارف کرانے کے لیے محنت درقرار ہے تاکہ ان کی رہنمائی اور تجربے سے دیگر آنے والی نئی خواتین کی تربیت کی جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں گزشتہ 15 برس سے خواتین مزدوروں کی شمولیت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے اس اعتبار سے ہر پانچ میں سے ایک خاتون لیبر فورس کا حصہ ہے۔


یہ خبر 3 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں