کراچی: سندھ کے وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا ہے کہ کراچی کو فراہمی آب کے منصوبے کے 4 کی تکمیل ایک سال کی تاخیر کا شکار ہے تاہم منصوبہ آئندہ سال کے وسط میں مکمل کرلیا جائے گا۔

سندھ اسمبلی میں محکمہ بلدیات سے متعلق وفقہ سوالات کے دوران جام خان شورو نے کہا کہ عسکری تعمیراتی کمپنی فرینٹئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) منصوبے پر کام کررہی ہے اور طے شدہ وقت کے مطابق ادارہ منصوبہ جون 2018 تک مکمل کرنے کا پابند تھا۔

یہ پڑھیں: رہائش کیلئے ’کراچی‘ دنیا کے بدترین شہروں میں شامل

انہوں نے بتایا کہ ’ایف ڈبلیو او کی جانب سے منصوبے پر 386 مشینیں 120 کلو میڑ طویل سائیٹ پر 11 سو مزدوروں کے ساتھ کام کررہے ہیں‘۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ثمینہ ضیاء کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے لیے سندھ حکومت نے 5 ارب 20 کروڑ جبکہ وفاقی حکومت 6 ارب 40 کروڑ روپے فراہم کر چکی ہے۔

بلقیس مختار کے سوال پر صوبائی وزیر نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے منصوبے کے لیے درکار اراضی کی ادائیگی کے لیے 5 ارب روپے دینے تھے تاہم وفاق 50 فیصد ادائیگی دینے سے انکاری ہے جبکہ وفاق اور سندھ کے مابین نصف ادائیگی کا معاہدہ طے پایا تھا۔

جام خان شورو نے کہا کہ منصوبے کے اہمیت کے پیش نظر سندھ حکومت نے 2 ارب 50 کڑور روپے جاری کردیئے لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت سے بات کریں گے کہ وہ وعدے کے مطابق تمام حوالوں سے اپنا حصہ ادا کرے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمور سے کراچی تک صاف پانی کی فراہمی ہماری ذمہ داری، مراد علی شاہ

انہوں نے بتایا کہ کے 4 منصوبے میں پانی کی فراہمی پر وفاقی حکومت نے آمادگی کا اظہار کیا تھا لیکن وعدہ پورا نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی۔

وزیر بلدیات نے یقین دہانی کرائی کہ تمام اراضی کے مالکان کو ان کی زمین کی ادائیگی کی جائے گی۔

انہوں نے تصدیق کی کہ کے 4 منصوبے سے بحریہ ٹاؤن کو براہ راست لائن فراہم کرنے کی تمام باتیں مفروضے ہیں تاہم کسی کو بھی منصوبے سے ڈائریکٹ لائن فراہم نہیں کیا جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ کے 4 منصوبے کے تحت پیپری، منگھوپیر اور بقائی یونیورسٹی کے پاس فلٹرپلانٹ سے فراہمی آب کے سلسلے کا آغاز ہوگا جس سے لانڈھی، کورنگی، لیاری، وسطی اور جنوبی اضلاع سمیت دیگر اضلاع کو بھی پانی ملے گا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پانی تو ہے لیکن فراہمی کا نظام نہیں، سپریم کورٹ

جام خان شورو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لیاری ندی اور ملیر ندی پر ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب ہیں جس سے خارج ہونے والا پانی سمندر میں جائے گا۔

وزیر بلدیات نے کہا کہ ’ٹریٹمنٹ پلانٹ سے خارج ہونے والے پانی کو زراعت کے لیے استعمال کرنے کا تاحال کوئی منصوبہ نہیں‘۔


یہ خبر 6 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں