اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے نجکاری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر میں دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ بنتا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دانیال عزیز کے جواب سے مطمئن نہیں۔

سپریم کورٹ نے دانیال عزیز پر آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ بنتا ہے۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: دانیال عزیز کی تقاریر کا ٹرانسکرپٹ اور ویڈیوز طلب

جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اگر سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ توہین عدالت کا مقدمہ بنتا ہے تو کارروائی آگے بڑھائی جائے، جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ مجھے جج بنے ہوئے 14 سال ہوچکے ہیں اور ان 14 سالوں میں کبھی کسی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ میں نے تو عدالتی فیصلوں میں یہاں تک لکھا کہ فیصلوں پر ’فیئر اور حتیٰ کہ ان فیئر کمنٹس بھی کیے جاسکتے ہیں‘، انہوں نے مزید کہا کہ اب میں اس سے تنگ آچکا ہوں۔

ادھر دانیال عزیز کے وکیل عزیز علی رضا نے عدالت کے سامنے دلائل دیئے کہ ڈان نیوز نے نجی محفل کی گفتگو دکھائی جبکہ نیو ٹی وی کے بیان میں عدالت کا کوئی ذکر نہیں جبکہ دنیا اخبار کی سرخی کے متن میں بھی ایسا کوئی ذکر نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: لیگی رہنما دانیال عزیز کو شو کاز نوٹس

جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ دانیال عزیز گزشتہ تین برس سے ایسی باتیں کر رہے ہیں اور دانیال عزیز کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پاناما فیصلہ پڑھا ہے۔

دانیال عزیز کے وکیل نے کہا کہ صرف فیصلہ پڑھا ہے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت نے کہا کہ عدالت میں دستاویزات کچھ اور دی جاتی تھیں جبکہ عدالت کے باہر میڈیا پر تقریریں کچھ اور کی جاتی تھیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے دانیال عزیز توہین عدالت کیس کی سماعت 13 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے دانیال عزیز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری

23 فروری کو سپریم کورٹ نے دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ڈان نیوز سمیت دو نجی ٹی وی چینلز کی دانیال عزیز کی تقریر سے متعلق نیوز کلپس اور ٹرانسکرپٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

خیال رہے کہ 19 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے نجکاری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعہ 23 فروری تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

7 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے دانیال عزیز کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت دے دی تھی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وفاقی وزیر دانیال عزیز کی جانب سے کی گئی عدلیہ مخالف تقریر پر 2 فروری کو از خود نوٹس لیا تھا۔

طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس سماعت کی۔

اس موقع پر طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ بیانات سے متعلق سی ڈی فراہم نہیں کی گئی تاہم جواب داخل کرادیا ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ٹرانسکرپٹ فراہم کر دیا گیا تھا تاہم طلال چوہدری کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ٹرانسکرپٹ میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے اس لیے میرے موکل کے اطمینان کے لیے سی ڈی فراہم کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کے وکیل کی عدم پیشی پر سماعت ملتوی

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو سب پتہ ہے کہ آپ نے کیا گفتگو کی، جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ٹرانسکرپٹ موجود ہے پہلے ہی بہت زیادہ وقت دے چکے ہیں۔

جس پر طلال چوہدری کے وکیل نے کہا کہ سیاسی صورتحال میں ٹیمپرنگ کا چانس ہوتا ہے اس لیے سی ڈی دیکھنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بیانات سے متعلق سی ڈی طلال چوہدری کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کے کیس کی سماعت 8 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

26 فروری کو سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے متعلق توہین عدالت ازخود نوٹس کیس میں وکیل کی عدم پیشی پر سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری نے عبوری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

24 فروری کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کیس کا سامنا کرنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر مملکت طلال چوہدری نے عدالت میں اپنا عبوری جواب جمع کرایا تھا۔

6 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مہلت دی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار یکم فروری کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔

یاد رہے کہ طلال چوہدری نے رواں سال جنوری میں مسلم لیگ (ن) کے جڑانوالہ میں جلسے کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک وقت تھا جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، آج ہماری عدالت جو ایک اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ ہے میں پی سی او ججز کی بھرمار ہے'۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میاں صاحب انہیں باہر پھینک دو، انہیں عدالت سے باہر پھینک دو، یہ انصاف نہیں دیں گے بلکہ اپنی نا انصافی جاری رکھیں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں