پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کے علاج معالجے کے معاملے پر کراچی کے ایک نجی ہسپتال نے بھی ان کا علاج بیرون ملک سے کروانے کی تجویز دے دی۔

کراچی کی احتساب عدالت میں شرجیل میمن کے حوالے سے سماعت کے دوران میڈیکل بورڈ کی جانب سے نجی ہستپال ساؤتھ سٹی کی جانب سے دیا گیا جواب بھی جمع کرایا گیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل جناح ہسپتال کے میڈیکل بورڈ نے بھی شرجیل میمن کے بیرون ملک علاج کی تجویز دی تھی جس کے بعد عدالتی حکم پر نجی ہسپتال ساؤتھ سٹی سے بھی تجویز لی گئی تھی۔

نجی ہسپتال کی جانب سے دیے گئے جواب میں بتایا گیا کہ ڈسک ریپلسمنٹ سرجری کی سہولت ہسپتال میں موجود نہیں اور یہ سرجری پاکستان میں کرنا انتہائی خطرناک ہے۔

مزید پڑھیں: میگا کرپشن کیس میں شرجیل میمن پر فردِ جرم عائد

جواب میں کہا گیا کہ اس سرجری کی تمام تر سہولیات یورپی ممالک میں موجود ہیں اور اگر بروقت سرجری نہ کی گئی تو شرجیل میمن معذور ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب نیب استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ بیرون ملک علاج کی ضرورت نہیں ہے اور یہ تمام سہولیات یہاں دستیاب ہیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے اس رپورٹ کا جائزہ لیا گیا اور اس پر کسی بھی وقت فیصلہ آنے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ شرجیل انعام میمن کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ انھیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل احتساب عدالت نے شرجیل انعام میمن سمیت 12 ملزمان پر سندھ کے محکمہ اطلاعات میں 5 ارب 76 کروڑ روپے کی بد عنوانی کے خلاف دائر ریفرنس میں فردِ جرم عائد کی تھی، تاہم ریفرنس میں نامزد تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا تھا۔

سندھ کے محکمہ اطلاعات میں کرپشن — کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، اس وقت کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات، ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر پر 15-2013 کے دوران سرکاری رقم میں 5 ارب 76 کروڑ روپے کی خرد برد کا الزام ہے۔

سابق صوبائی وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے آگاہی مہم کے لیے الیکٹرونک میڈیا کو دیے جانے والے اشتہارات کی مد میں کی جانے والی کرپشن کے دوران خرد برد کی۔

یہ بھی پڑھیں: 'شرجیل میمن کیخلاف کروڑوں کے غبن کی انکوائری'

شرجیل انعام میمن نے 2015 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی تھی اور تقریباً 2 سال تک بیرون ملک رہنے کے بعد جب وہ گزشتہ برس 18 اور 19 مارچ کی درمیانی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے، تو انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اہلکاروں نے ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔

تاہم 2 گھنٹے پوچھ گچھ کرنے اور ضمانتی کاغذات دیکھنے کے بعد نیب راولپنڈی کے اہلکاروں شرجیل میمن کو رہا کردیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض شرجیل میمن کی حفاظتی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔

یہ بھی یاد رہے کہ 23 اکتوبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے نیب کی اپیل پر شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی جس کے بعد نیب کی ٹیم نے انھیں عدالت سے باہر آتے ہی گرفتار کرلیا تھا۔

بعدِ ازاں سابق صوبائی وزیر سمیت 12 ملزمان کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھی جنہیں چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مسترد کردیا تھا۔

یاد رہے کہ 25 نومبر 2017 کو شرجیل میمن نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

4 دسمبر 2017 کو ہونے والی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کردی گئی تھی جس میں ممکنہ طور پر ان کے اور دیگر شریک ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد کی جانی تھی۔

سماعت سے قبل شرجیل میمن کے وکیل کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ سابق صوبائی وزیر کی طبیعت نا ساز ہے اور انہیں طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

13 دسمبر 2017 کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے شرجیل انعام میمن کی طبی سہولیات کی تشخیص کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے اس میں نیورولوجسٹ، نیورو فیزیشنز اور دیگر ڈاکٹروں کو شامل کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جبکہ سیکریٹری صحت کو بھی اس حوالے سے جواب جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

23 دسمبر 2017 کو شرجیل میمن اور دیگر ملزمان کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیب حکام نے اپنی رپورٹ میں ملزمان کی گرفتاری سے متعلق عدالت کو گمراہ کیا تاہم ان کی گرفتاری کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

شرجیل انعام میمن کی جانب سے دائر درخواست کے بعد عدالت نے ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی آئندہ سماعت تک مؤخر کردی تھی۔

سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئیں تھیں جنہیں 2 جنوری 2018 کو عدالتِ عظمیٰ نے کو مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں