کراچی: بن قاسم انڈسٹریل پارک (بی کیو آئی پی) اور کورنگی کریک انڈسٹریل پارک (کے سی آئی پی) کے سرمایہ کاروں نے الزام لگایا ہے کہ نیشنل انویسٹمنٹ پارک (این آئی پی) میں موجود بیوروکریسی کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے باعث منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کا سامنا تھا، جس کے باعث اخراجات میں اضافہ ہوا۔

اس حوالے سے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ہونڈائی کمپنی کی جانب سے بی کیو آئی پی پر پلانٹ لگانے کا ارادہ تھا، تاہم نیشنل انویسٹمنٹ پارک کے بیوروکریسی کی مداخلت کے معاملے نے کورین کمپنی کو اپنی سرمایہ کاری فیصل آباد کے خصوصی اقتصادی زون (ایف آئی ای ڈی ایم سی) میں منتقل کرنے پر مجبور کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ الفتم موٹرز کو بھی رینالٹ کار اسمبلنگ پلانٹ کے لیے بی کیو آئی پی میں 50 ایکڑز الاٹ کیا گیا تھا اور نومبر 2017 میں رینالٹ اور الفتم گروپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت وہ کراچی میں اپنے نئے پلانٹ پر گاڑیاں اسمبل کریں گے، تاہم این آئی پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے تاخیر کے باعث یہ کمپنی بھی اپنے پلانٹ کو فیصل آباد منتقل کرنے پر مجبور ہوگئی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں مسلسل دوسرے ماہ کمی

اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کی جانب سے بی کیو آئی پی میں انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی اور دیگر معاملات کے لیے نیشنل انویسٹمنٹ پارک اور ڈویلپمنٹ اور مینجمنٹ کمپنی سے بھی رابطہ کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ این آئی پی کی جانب سے دنیا کی بہترین سہولیات کی فراہمی اور تمام سہولیات ان کی دہلیز تک پہنچانے کے وعدے کی بنیاد پر سرمایہ کار کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز بن قاسم انڈسٹریل پارک میں تقریباً دوگنی رقم میں پلانٹ خریدنے پر راضی ہوئے تھے۔

سرمایہ کاروں کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جنوری 2018 تک بجلی کے کنیکشن کی فراہمی کردی جائے گی لیکن ان وعدوں کے برعکس منصوبوں کو انفرا اسٹرکچر اور بنیادی ضروریات، جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

اس وقت بن قاسم انڈسٹریل پارک میں 5 صنعتی یونٹس زیر تعمیر ہیں جن کی اپریل 2018 تک کل طلب 10 میگا واٹ تک ہوگی اور اس بارے میں این آئی پی سے 2017 میں الاٹمنٹ کے وقت ہی بات چیت کی گئی تھی۔

تاہم سرمایہ کاروں کی جانب سے متعدد مرتبہ یاددہانی کے باوجود اس وقت این آئی پی کے پاس اضافی بجلی دستیاب نہیں ہے اور اس حوالے سے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے گئے ہیں۔

اس بارے میں این آئی پی کا کہنا تھا کہ بنیادی سہولیات اور پاور پالیسی پر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے فیصلے کا انتظار ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے این آئی پی چیئرمین محمد افضل سے کئی مرتبہ رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اگست 2017 سے بن قاسم انڈسٹریل پارک پاور پالیسی این آئی پی کے ہر بورڈ اجلاس کا ایجنڈا ہوتی ہے، تاہم بورڈ کی جانب سے اس اہم مسئلے پر کوئی فیصلہ نہیں لیا۔

بن قاسم انڈسٹریل پارک میں سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کی جانب این آئی پی کو ایک ایس او ایس بھی ارسال کیا گیا تھا کہ وہ انہیں نان اوبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کریں، جس میں انہیں اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات یوٹیلیٹی کمپنیوں سے براہ راست رابطہ کرکے مکمل کرلیں۔

اس میں مزید نتایا گیا تھا کہ یہاں تک کہ اگر این آئی پی کی جانب سے ابھی این او سی جاری کیا جائے تو سرمایہ کاروں کو کے الیکٹرک سے بجلی کنکشن اور سوئی سدرن گیس کمپنی سے گیس کے کنکشن حاصل کرنے کے لیے کم از کم 10 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔

اس کے برعکس فیصل آباد اقتصادی زون میں سرمایہ کاری انہیں فائدہ مند دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہاں انہیں 66 لاکھ روپے فی ایکٹر میں زمین فروخت کی جارہی ہے جبکہ 100 کلو واٹ پر ایکڑ کنکشن بھی فراہم کیا جارہا ہے۔

اس بارے میں سرمایہ کاروں نے ڈان کو بتایا کہ ان کی کمپنیوں نے این آئی پی کے وژن کی بنیاد پر بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کا خطرہ اٹھایا تھا، جس کے بعد اب انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے منصوبوں میں انہیں مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: درآمد شدہ کاروں کی کلیئرنس میں ایک نئی رکاوٹ

ذرائع کے مطابق جو کمپنیاں اس وقت بن قاسم انڈسٹریل پارک میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں ان میں کیا لکی موٹرز، ٹیکنو آٹو گلاس، ہائی ٹیک آٹو پارٹس، ہوری زون اسٹیل اور احمد گلاس شامل ہیں اور جون 2019 تک ان کمپنیوں کی مجموعی سرمایہ کاری 20 ارب روپے سے تجاوز کرجائے گی۔

دوسری جانب کورنگی کریک انڈسٹریل پارک کی صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں اور وہاں بھی سرمایہ کاروں کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔

کے سی آئی پی کو مارچ 2010 میں این آئی پی کی جانب سے شروع کیا گیا اور یہاں 250 ایکڑز کے حصے میں 100 صنعتی پلاٹس کی جگہ ہے لیکن اب تک صرف 7 یونٹس زیر تعمیر ہیں۔

اس کے علاوہ کے سی آئی پی میں سرمایہ کاروں کو ایک اور اہم مسئلے کا سامنا ہے اور این آئی پی کو مکمل ادائیگی کرنے والی اور تعمیر مکمل کرنے والی کمپنیوں کو تاحال سب لیز جاری نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اس جگہ کی مالیاتی ادارے کے طور پر لاگت صفر ہے اور صنعتی تعمیر کے لیے بھی سرمایہ کاری صفر ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Laiq saad Mar 10, 2018 12:08am
Its deliberate attempt by the government and the beauracracy for not letting industries to setup in other part of pakistan other than punjab
Masood Mar 10, 2018 08:14pm
@Laiq saad This is Sindh Govt. and Sindh Beauracracy's failure to fulfill their promises with investors and showing emotionless and willing-less behavior which make them to relocate their investment. This Automobile investment was such a brilliant opportunity for people in Karachi to get jobs there but our Sindh Govt. and their machinery presented non-serious attitude in this matter as well.
زیدی Mar 10, 2018 11:27pm
بیوروکریسی اچھی نقاب ھے جس کے پردہ میں پنجاب جو کچھ چاھتا ھے کرتا ھے ۔