Dawnnews Television Logo

جدید اسپورٹی ماڈل : آڈی کی اے-6 کار

ہیڈلائٹس اور بیک لائٹس کو خصوصی طور پر ڈیزائن کیاگیا، کروم بار اور پچھلا حصہ مزید ایروڈائنامک اصولوں کے مطابق بنایا گیا۔
شائع 17 مارچ 2018 07:35pm

جنیوا موٹر شو کے بڑے اسٹیج پر آفیشل ورلڈ پریمئر سے چند دن قبل آڈی نے اپنا بالکل نیا ماڈل اے-6 (A6) متعارف کروایا۔

ڈیزائنر وولف زیبرس بتاتے ہیں کہ آڈی نے اب تک کی سب سے زیادہ اسپورٹی اے 6 گاڑی بنانے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ آڈی اپنی نئی گاڑی میں گزشتہ ماڈل کی تمام بہترین خصوصیات شامل رکھنا چاہتی تھی، پہلے کی تمام اہم خصوصیات لیکن اسی کے ساتھ ایک بالکل ہی نئے طرز کا ڈیزائن بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

آواز: ایاز لغاری، عاتکہ رحمٰن

گاڑی کا بیرونی ڈیزائن

زیبرس گاڑی کے اگلے حصے کے نئے ڈیزائن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ہر آڈی کی شان اور اس کی پہچان سنگل فریم گِرل اس گاڑی میں واضح طور پر سپاٹ اور چوڑی ہے، اسی وجہ سے نیا اے6 ماڈل زیادہ اسپورٹی نظر آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہیڈ لائٹس اور بیک لائٹس کو خصوصی طور پر تھری ڈائمنشنل ڈیزائن دیا گیا ہے جبکہ کروم بار اور پچھلا حصہ گاڑی کو مزید ایروڈائنامک اصولوں کے مطابق بنادیتا ہے۔

گاڑی کی طاقت

وولف زیبرس نے بتایا کہ ابتدائی طور پر اے 6 ماڈل، 4 مختلف انجنز کے ساتھ دستیاب ہوگا، جن میں سب سے پہلے 250کلوواٹ کا وی 6 ٹی ایف ایس آئی انجن شامل ہے۔ جس کے بعد ہے سلنڈر ٹربو چارجڈ ڈیزل انجن ہے، جو 170 کلوواٹ اور 210 کلوواٹ کی طاقت فراہم کرسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام انجنز کواٹرو 4 وہیل ڈرائیو سسٹم اور آٹو میٹک ٹرانسمیشنز کے ساتھ آتے ہیں، جبکہ گاڑی میں سب سے چھوٹا فرنٹ وہیل ڈرائیو والا 4 سلنڈر ڈیزل انجن دستیاب ہوگا۔

آڈی کے نمائندے رینالڈ لوسوسکی اسے تمام انجنوں کا اس نفیس ملاپ کہتے ہیں، وہ مزید بتاتے ہیں کہ گاڑی میں آٹومیٹک ٹرانسمیشن شامل کرنے کا مقصد بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرنا ہے۔

آڈی نے ٹرانسمیشنز اور اس کے ساتھ ساتھ گاڑی کے پچھلے ایکسل ڈفرینشیل کو نئے طرز کے ساتھ تیار کیا تا کہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کم سے کم ہو۔

رینالڈ لوسوسکی کے مطابق آپ 2 آٹومیٹک ٹرانسمیشنز میں سے، کسی ایک انتخاب کرسکتے ہیں، یا تو 500 یا اس سے زائد نیوٹن میٹر ٹارک دینے والے انجن کے لیے کلاسک ٹارک کنورٹر کا انتخاب کریں یا پھر فرنٹ وہیل ڈرائیو کے لیے بالکل نئے ڈیوئل کلچ ٹرانسمیشن کا انتخاب کریں، جو کواٹرو الٹرا کے لیے آٹومیٹک کے طور پر کام کرتا ہے، جبکہ یہ ٹرانسمیشن 500 نیوٹن میٹر ٹارک یا اس سے کم ٹارک دینے والے انجن کے لیے ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اے6 میں شامل جدید ٹیکنالوجیکل خصوصیت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گاڑی کو اسمارٹ فون کی مدد سے ان لاک جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے رینالڈ لوسوسکی نے مزید کہا کہ گاڑی فون کی شناخت کرلیتی ہے اور اسمارٹ فون سے ڈرائیور کی ترجیحات لوڈ کرلیتی ہے۔

گاڑی کا اندرونی حصہ

اے 6 کئی حوالوں سے سابقہ ماڈل اے8 کی طرز پر بنائی گئی ہے، خاص طور اس کا شاہانہ اور نفیس اندورنی اگلا حصہ اس کی نشاندہی کر رہا ہے۔

آڈی کی نمائندہ لوئیسا شویباؤر بتاتی ہیں کہ ہر گاڑی میں 2 مانیٹرز ہیں، گاڑی میں نصب اپر اور لوور ڈسپلیز 8.6 انچز کے ہیں، اونچی ٹرم لائنز کے ساتھ اپر ڈسپلے کا سائز 10.1 انچز بنتا ہے۔

لوئیسا شویباؤر نے مزید کہا کہ ان 2 اسکرینز کی وجہ سے گاڑی میں اب کوئی بٹن نہیں ہے۔ لہٰذا ڈرائیور اور مسافر اب ہر کام ٹچ اسکرین کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں، اس طرح یہ ایک متحرک آپریٹنگ تصور ہے کہ جس میں چھونے اور آڈیو فیڈبیک دونوں شامل ہیں، یوں وائبریشن یا آڈیو سگنل کی مدد سے ڈرائیور کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کسی کنٹرول کو دبایا جائے تو معمولی وائبریشن یا آڈیو سگنل ان کے انتخاب کردہ کنٹرول کی تصدیق کردیتا ہے، اس طرح ڈرائیونگ سے تھوڑا سا بھی دھیان ہٹائے بغیر آرام سے ملٹی میڈیا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس نظام کے حوالے سے لوئیسا شویباؤر نے مزید کہا کہ اس سسٹم کو آواز کی مدد سے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ اسکرین پیڈ پر ایڈریسز کا اندراج کیا جاسکتا ہے۔

جدت

لوئیسا شویباؤر نے کہا کہ ایسی ہی ایک متحرک اور پلک جھپکنے کے ساتھ کام کرنے والی خاصیت ہاتھ سے لکھے گئے الفاظ کی پہچان (ہینڈ رائٹنگ ریکگنائزیشن) ہے ، مثلاً اگر آپ کو جرمنی کے دارالحکومت برلن جانا ہے، تو صرف اسکرین پر برلن لکھا جائے اور گاڑی برلن تک خود ہی گائیڈ کرے گی۔

وہ بتاتی ہیں کہ آڈی کو پتہ ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران کچھ لکھنا آسان نہیں، اسی لیے اس سسٹم کو بھی زیادہ سے زیادہ متحرک بنانا ضروری تھا، گاڑی میں ڈرائیور ایک حرف کے اوپر ہی دوسرا حرف لکھ سکتا ہے اور سسٹم خود ہی آپ کا مطلوبہ پتہ پلک جھپکتے ہی ڈھونڈ لے گا۔

واضح رہے کہ جرمنی میں نئی آڈی اے6 کی قیمت 44000 یوروز سے شروع ہوتی ہے۔


یہ تحریر ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے اشتراک سے تحریر کی گئی

ترجمہ: ایاز احمد لغاری —ایڈیٹر : وقار محمد خان