اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ملک میں قدرتی گیس کے سرکاری اداروں سوئی سدرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) سے متعلق اصلاحاتی پیکج صوبائی تنقید اور ضابطے کی کارروائیوں میں تاخیر کے باعث جنوری 2019 کے بعد بھی مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

ورلڈ بینک کی تجویز کردہ سفارشارت کی بنیاد پر وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو کہا تھا کہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کو کم از کم پانچ پبلک سیکٹر کمپنیوں میں بدل دیا جائے جس میں پرائیوٹ آپریٹرز کی معاونت بھی شامل ہوگی۔

یہ پڑھیں: قدرتی گیس پر وفاق کے کنٹرول سے سینیٹرز ناخوش

اس ضمن میں ایک ایڈوائزری کمیٹی بھی تشکیل دینی تھی جس نے دونوں اداروں کو پانچ کمپنیوں میں تبدیل کرنے سے متعلق امکانات، فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔

اس ضمن میں بین الاقوامی اور مقامی کمپنیوں پر مشتمل 9 اداروں نے ایڈوائزری کمیٹی کے لیے ٹینڈر فائل کیے لیکن ان میں سے بعض کمپنیوں نے محدود وقت اور طویل وقت کے لیے غیر ملکی ماہرین کو پاکستان میں رکھنے کی شرط پر تحفظات کا اظہار کیا۔

بین الاقوامی کمپنیاں ان مذکورہ شرائط پر نرمی کی خواہاں تھیں۔

متعلقہ ادارے کے مطابق ایڈوائزری کمیٹی کے کنسلٹنٹ اداروں کی 50 فیصد مکمل تبدیلی تک پاکستان میں رہنے کا پابند قرار دیا تھا لیکن ’غیر ملکی کمپنیوں نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان میں طویل عرصے تک قیام پر تحفظات کا اظہار کیا اسے آمدنی سے زائد خرچہ بھی قرار دیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: گیس اصلاحات گھریلو صارفین پر اثر انداز ہوں گی

دوسری جانب حکومت شرائط میں نرمی کرنے کے حق میں نہیں تھی، ٹینڈر کی رو سے کمپنی کو ظاہری طور پر پاکستان میں ہونا ضروری ہے۔

کمپنیوں نے اصلاحاتی عمل کو مکمل کرنے کے لیے 6 ماہ کی بکنگ بھی کرائی لیکن کام کا حجم اور انتخابات کے پیش نظر مقررہ وقت کو انتہائی کم قرار دیا گیا۔

دوسری جانب کمپنیوں کو باور کرایا گیا کہ حکومت مذکورہ اصلاحاتی پیکج پر سنجیدہ ہے اور 6 ماہ کی مدت میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی اور ’مطلوبہ کام 31 دسمبر 2018 تک مکمل کرلیا جائے‘۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے مطلوبہ منصوبے پر فوری عمل درآمد رواں برس ممکن نہیں ہوپائے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلاحاتی عمل جنوری 2019 کے بعد ہی شروع ہوگا جب نئی حکومت اپنے قدم جما چکی ہوگی۔

مزید پڑھیں: اپنے عزیز سمندر میں ہم نے مچھلی نہیں دشمنی پالی ہوئی ہے

انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں بعض عدالتی نوٹسز کا سامنا بھی ہو سکتا ہے جس کے بعد منصوبے کو مقررہ وقت میں مکمل کرنا ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ ورلڈ بینک نے 25 سال قبل مذکورہ منصوبہ پیش کیا تھا جس کی رو سے حکومت سے کہا گیا کہ قدری گیس کو گھریلو صارفین کے لیے فراہم کی جائے جبکہ کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کے لیے درآمدی کیس کو نئی قتیموں پر فراہم کیا جائے۔

جس کے بعد وفاق نے تجویز دی کہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کی ڈسٹریبیوشن اور ٹرانسمیشن کا عمل الگ الگ کردیا جائے جس کے لیے پانچ نئی کمپنیاں متعارف کرائی جائیں جس میں سے ایک ٹرانسمیشن جبکہ 4 ڈسٹریبیوشن کا کام کریں گی۔

مذکورہ منصوبے پر صوبوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور تجویز دی کہ صوبوں کو گیس فیلڈ سے لیکر اس کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن سمیت صارفین تک مکمل اختیارات دیئے جائیں۔


یہ خبر 12 مارچ 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں