بھارتی فوج نے دو انجینیئرنگ کے طالب علموں سمیت 3 نوجوان ہلاک ہوگئے جس کے بعد خطے میں وسیع طور پر احتجاجی مظاہرے کا آغاز ہوگیا۔

مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج نے آننت ناگ گاؤں میں مسلح افراد کی موجودگی کی اطلاع پر صبح صادق سے قبل چھاپہ مارا جس کے بعد وہاں کی گئی۔

ایک مقامی پولیس افسر الطاف خان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے تین مسلح افراد کو ہلاک کردیا۔

مزید پڑھیں: بھارت کے حکومتی عہدیدار کی مقبوضہ کشمیر میں قتلِ عام بند کرنے کی اپیل

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں سری نگر کے عیسیٰ فضلی، آننت ناگ ضلع کے اویس اور سبزار احمد سوفی شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عیسیٰ فضلی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں بی ٹیک کے طالب علم تھے۔

بھارتی حکام نے الزام لگایا کہ ہلاک ہونے والے تینوں افراد علیحدگی پسند تھے جنہیں مقابلے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

تینوں نوجوان کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی وادی کے بیشتر علاقوں میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔

حکام نے اسکولز بند رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے سری نگر کے کچھ حصوں میں کرفیو نافذ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر کی ’تحریک آزادی‘ کیلئے پاکستان کی عسکری حمایت کا مطالبہ

سری نگر اور کچھ کشمیر کے دیگر اضلاع میں میں زیادہ تر دکانیں بند ہوگئیں اور ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیا گیا جبکہ حکام کی جانب سے پیراملٹری فوج کو طلب کرلیا گیا۔

کرفیو کے نفاذ کے باوجود کشمیر کے علاقے اسلام آباد اور کوکرناگ کے مقامیوں نے مظاہرے کیے جن میں سے چند سیکیورٹی فورسز سے تصادم کی صورت اختیار کرگئے تھے۔

دریں اثناء حکام نے حریت فورم کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیا گیا۔

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی عوام میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں میں بھارتی حکمرانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور مسلح حملے سامنے آئے ہیں۔

احتجاجی مظاہروں اور بھارتی فوج کے کریک ڈاؤن کے دوران اب تک تقریباً 70 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں