فیس بک پر کافی عرصے سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں کردار کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اب اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔

اقوام متحدہ کے حقائق جاننے کے لیے کام کرنے والے آزاد مشن کے چیئرمین مرزیوکی دارعثمان نے میڈیا بریفننگ کے دوران بتایا کہ سوشل میڈیا نے میانمار میں نفرت انگیز تقاریر کو پھیلانے میں 'فیصلہ کن' کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا مسلمان گھروں کو چھوڑ کر ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

انہوں نے بتایا ' سوشل میڈیا تصادم، شدت اور اختلاف رائے بڑھانے میں شراکت دار ہوتا ہے اور نفرت انگیز تقاریر اس کا بڑا حصہ ہے۔ جہاں تک میانمار کی صورتحال کا تعلق ہے ، وہاں فیس بک ہی سوشل میڈیا ہے اور سوشل میڈیا ہی فیس بک ہے'۔

مزید پڑھیں : 50 سال کی ناانصافی، روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

گزشتہ سال اگست سے جاری تنازعے کے نتیجے میں ساڑھے 6 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار کی ریاست راکھائن سے نقل مکانی کرچکے ہیں، ان میں سے بیشتر افراد نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے قتل عام اور اجتماعی زیادتی کے واقعات کا احوال بیان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 'میانمار فوج روہنگیا خواتین کے ساتھ گینگ ریپ میں ملوث

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے اسے نسلی صفائی کی مثال قرار دیا۔

فیس بک میانمار میں لوگوں کے لیے خبروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جسے وہاں کے شہریوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا۔

اقوام متحدہ کی تفتیش کار یانگ ہی لی نے بتایا ' فیس بک کو عوامی پیغامات پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ انتہا پسند بدھ افراد نے اسے روہنگیا مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے خلاف بہت زیادہ تشدد اور نفرت پھیلانے کے لیے اسے استعمال کیا'۔

ان کا کہنا تھا ' مجھے ڈر ہے کہ فیس بک اب ایک عفریت بن چکی ہے، جو اس کا اصل مقصد نہیں تھا'۔

یہ بھی دیکھیں : میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف

فیس بک کے ایک ترجمان کے مطابق نفرت انگیز تقاریر اور تشدد پر اکسانے کے حوالے سے اس کے اصول واضح ہیں اور کمپنی ان کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ میانمار میں ہم نے مقامی سطح پر اپنے کمیونٹی اصولوں کے ترجمہ شدہ ورژن متعارف کرائے اور ایک سیفٹی پیج مختص کیا، جس میں ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ مثبت تقاریر کے فروغ کے لیے بھی کام کررہے ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں