کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے ریاست مخالف سرگرمیوں، دھماکا خیز مواد اور اسلحہ رکھنے کے الزام میں مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو عدم ثبوتوں کی وجہ سے بری کردیا۔

محکمہ انسداد دہشت گردی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے محمد شفیق خان عرف پپو، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم عبد الجبار عرف ظفر ٹینشن، محسن خان عرف کاشف، خالد امان عرف داد اور عادل انصاری کو 2015 میں گلستان جوہر سے بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے تعلق ہونے، بھارت سے ٹریننگ لینے، دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے اور ریاست مخالف سرگرمیوں اور اسلحہ اور گولہ بارود رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔

گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جانے اور دونوں اطراف کے بیانات سننے کے بعد احتساب عدالت کے جج نے ملزمان پر عدم ثبوتوں کی وجہ سے تمام چارجز ختم کردیے۔

مزید پڑھیں: 'را' کے وہ ایجنٹ جنہیں پاکستان میں ہیرو سمجھ لیا گیا

خیال رہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم خالد امان کا اعترافی بیان کرمنل پروسیجر کوڈ 2015 کے سیکشن 164 کے تحت قلم بند کیا تھا۔

تاہم ملزمان کے وکیل مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ اعترافی بیان میں قانونی وزن نہیں کیونکہ بیان ریکارڈ کیے جانے کے بعد مجسٹریٹ نے ملزم کو جیل بھیجنے کے بجائے پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق محکمہ انسداد دہشت گردی نے 27 اگست کو گلستان جوہر سے مقابلے کے بعد 4 افراد کو حراست میں لیا تھا۔

بعد ازاں سی ٹی ڈی نے ان کے ایک اور ساتھی عادل انصاری کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔

سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ حراست میں لیے گئے ملزمان بھارت سے تربیت یافتہ را کے ایجنٹس تھے اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنماء محمد انور اور دیگر دو محمود صدیقی اور محمد سلمان بھی کیس میں مطلوب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور سے ’را‘ کے مزید 4 ایجنٹ گرفتار

استغاثہ نے مزید کہا کہ تفتیش کے دوران ملزم امان نے بتایا کہ محمد انور اور محمود صدیقی نے انہیں را سے ٹریننگ دلانے میں کردار ادا کیا تھا۔

امان نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تھا کہ تربیت کے بعد اسے حراست میں لینے کے بعد دہلی کی جیل بھیج دیا گیا تھا۔

بعد ازاں ایم کیو ایم کے رہنماء نے محمود صدیقی کے ہمراہ لندن سے آئے تھے اور انہیں جیل سے رہا کراکے امان کو راء کی مدد سے واپس پاکستان بھیجا تھا۔

خیال رہے کہ ملزمان دھماکا خیز مواد رکھنے کی دفعہ 1908 اور سندھ اسلحہ ایکٹ 2013 کے کیس میں بھی نامزد ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 15 مارچ 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں