لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد واقعات کا ایک زبردست سلسلہ سا شروع ہوگیا ہے۔ نوجوان پختون مرد و خواتین کے ایک گروپ کو آواز مل گئی ہے، اور اب اس گروپ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اپنی داستان سنانے آگے آ رہے ہیں۔

ان کی کہانیاں وسیع تر سماج میں کافی زیادہ توجہ حاصل کر رہی ہیں، یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے ایک گراس روٹ تحریک اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس تحریک کی جو ایک سب سے دلچسپ بات ہے وہ ہے اس کا اچانک سے تشکیل پا جانا، اور اس کی قیادت کا نوجوان اور ہر طرح سے آزاد ہونا، جس کا کسی بھی منظم سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جس طرح سیاسی جماعتیں اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا انہیں نظر انداز کر رہا ہے وہ کافی افسوس ناک ہے۔

پشتون لانگ مارچ یا پشتون تحفظ موومینٹ کے نام سے جاری اس تحریک میں شامل افراد کے مطالبات بالکل واضح ہیں۔ وہ اپنے حقوق چاہتے ہیں جو آئین انہیں دیتا ہے: ماورائے قانون گرفتاریوں سے تحفظ، پرامن انداز میں ایک جگہ جمع ہونے کا حق، بولنے کی آزادی۔

یہ تحریک اس وقت جڑیں پکڑنے لگی کہ جب تحریک طالبان پاکستان کے خلاف 10 سالہ مہم کے دوران قبائلی علاقوں اور سوات میں فوجی آپریشنز کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کے لیے لگائے گئے کیمپوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ بے اطمینانی کی وجہ ریاستی حکام کا حقارت آمیز رویہ تھا چاہے وہ کوئی چیک پوسٹ ہو یا پھر قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کوئی نادرا سینٹر۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی تجاویز کی حمایت کی، جسے 2016ء کے آخر میں آخری شکل دی گئی (لیکن اس پر بھی عمل درآمد ہونا باقی ہے۔)

پڑھیے: پختون کا سوال

اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ان لوگوں کی آوازیں سنیں۔ وہ آوازیں سنیں جو گزشتہ ہفتے ژوب اور قلعہ سیف اللہ یا پھر اس اتوار کو کوئٹہ میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر بلند کی جاتی ہیں۔ رضا وزیر کی بھی آواز سنیں، جو نیو یارک ٹائمز میں لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک پختون ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے بیچ بڑا ہوتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ تمام واقعات سوشل میڈیا پر نظر آجاتے ہیں، بھلے ہی قومی میڈیا اپنی پوری توجہ سینیٹ انتخابات کی طرف مرکوز رکھے۔

ان آوازوں کو سنیں، یہ آوازیں آپ کے آس پاس ہی ہیں، ان آوازوں کو سن کر آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ اس میں اسی پاکستان کی بات ہو رہی ہے جس میں ہم آپ رہتے ہیں۔ ان میں آپ کو ایسی کہانیاں سنائی دیں گی جو آپ کو اکثر عراق اور سوڈان جیسے جنگ زدہ علاقوں سے سننے کو ملتی ہیں، آپ کو شاید ہی یہ یقین آئے کہ ایک پوری نسل اس قدر سنگین حالات میں پلی بڑھی ہے۔

فرض کیجیے: ایک 30 سال سے کم عمر کا شخص، جس کا تعلق کسی قبائلی علاقے، سوات یا پھر پشاور یا کوئٹہ سے ہے، اس کی عمر تقریباً ڈھائی دہائی پہلے 2001ء میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران کتنی ہوگی۔ 2001ء میں 10 برس کا بچہ آج 28 برس کا ہوگا۔ اگر وہ خوش قسمت رہا تو اس نے اب تک اپنی اسکول اور کالج کی تعلیم مکمل کرلی ہوگی، اور زندگی کے ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہوگا کہ جب آپ کے اندر ایک نئی زندگی، خاندان، کریئر، ملازمت، کاروبار شروع کرنے کی امیدیں جاگ اٹھتی ہیں۔ لیکن اس عمر کو پہنچ جانے والے نوجوان مرد و خواتین، جو کہ جنگ میں لڑتے ہوئے یا اس کا شکار بنتے ہوئے جنگ کی بھینٹ بننے سے بچ گئے ہیں، ان کے لیے اس عمر کا تجربہ کافی مختلف ہوتا ہے۔

اس تاریخ کو دہراتے وقت سب سے زیادہ تکلیف بے شمار قربانیوں کو یاد کر کے ہوتی ہے۔ وہ قربانیاں جو ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران خصوصاً پشاور، عموماً خیبرپختونخوا اور اس کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کے لوگوں نے پیش کیں۔ ہم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اس خوفناک تنازع کے ابتدائی برسوں کو بھول بیٹھے ہیں جو کہ لال مسجد آپریشن کے بعد سے اب تک جاری ہے، ان دنوں پشاور میں بم دھماکے روز کا معمول بن چکے تھے، جبکہ ایک بار تو ایک ایسے بازار کو بھی ہدف بنایا گیا جہاں بچوں اور خواتین کا خاصا رش تھا۔

ان دنوں دی نیوز میں An enormous strength of character is shining through کے عنوان کے ساتھ اداریہ شائع ہوا، جس میں پشاور اور باقی کے پی کے لوگوں کے ضبط کے اس حوصلے کی داد دی گئی، جس حوصلے کے ساتھ انہوں نے اپنی اوپر برستی وحشت ناک مصیبتوں کا بہادرانہ سامنا کیا۔ لال مسجد واقعے سے لے کر آج تک ہونے والی بموں کی برسات میں ہزاروں جانیں گئیں، لیکن ایک بار بھی اس عظیم صوبے کے عوام یا قیادت کو رحم کی درخواست کرتے نہیں دیکھا۔

پڑھیے: پختون دہشتگرد یا متاثرینِ دہشتگردی؟

یہ کہانیاں ہم پہلی بار نہیں سن رہے ہیں۔ محض چند برس قبل ہی، کوئٹہ شہر سے ایک غیر معمولی باغی اٹھ کھڑ ہوا تھا، اور اس نے بھی ایک ایسی کہانی سنائی جو کہانی آج ہمیں پشتون تحفظ موومینٹ میں شامل نوجوان مرد و خواتین سنا رہے ہیں۔ اس شخص نے بظاہر طور پر اپنا بیٹا انسداد بغاوت آپریشن میں کھویا تھا، اس نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک جانے، اور راستے میں مختلف قصبوں میں رکنے اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس سے ملاقاتیں کرکے انہیں اپنے صوبے کی صورتحال سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا نام ہے ماما قدیر، اور ان کا لانگ مارچ تنازع کا شکار بنے ہوئے ایسے علاقوں سے اٹھنے والی ابتدائی گراس روٹ آوازوں میں سے ایک تھا، جن علاقوں کے بارے میں ہم بہت کم علم رکھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ دیگر بھی اپنی آوازیں اٹھاتے رہے، ان میں اوکاڑہ کے کسان، گمشدہ ہونے والے اپنے پیاروں کا پتہ پوچھتے خاندان شامل ہیں، ہر کوئی صرف انصاف، اپنے حقوق، اور اس سماجی معاہدے میں مساوی شہری کے طور پر شمولیت کا مطالبہ کرتے رہے جو ہم سب کو باندھ کر رکھتا ہے۔

یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کس طرح جمہوری سیاست نے تقریباً مکمل طور پر ان آوازوں کو ان سنا کردیا۔ جمہوریت کی خود اصلاحی، جو کہ دنیا میں ایک سب سے طاقتور سماجی طاقت ہے، کا انحصار ان شکایتوں کے ازالے اور ان کو نظام کے مرکزی دھارے کی سیاست میں لانے پر ہوتا ہے۔ لیکن جب جمہوری سیاست بار بار غیرمنتخب قوتوں کے ہاتھوں بگاڑ دی جائے، تو یہ نیچے سے اٹھنے والے مطالبوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتی بلکہ اس کا زیادہ دھیان اوپر سے پڑنے والے پریشر پر ہوتا ہے۔

حالیہ سینیٹ انتخابات، جن کا انعقاد بھی پشتون تحفظ موومینٹ مارچ کے موقعے پر ہی ہوا، ہماری جمہوری سیاست میں بگاڑ کی واضح اور تازہ ترین مثال ہے۔

یہ مضمون 15 مارچ 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں