واشنگٹن: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی عرب میں قدامت پسندی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم سب انسان ہیں اور مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

اپنے دورہ امریکا کے دوران امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 32 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی اصلاحات سے متعلق کچھ بات چیت کی۔

مزید پڑھیں: ’سعودی ولی عہد نے اپنی والدہ کو والد سے دور کردیا‘

خیال رہے کہ سعودی ولی عہد کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انہوں نے خواتین کے حقوق میں کچھ اصلاحات کی، جن میں لباس کی پابندی ختم کرنے، کام کے مقامات پر خواتین کی نمائندگی بڑھانے اور خواتین کی ڈرائیونگ سے پابندی ہٹانے کی اصلاحات شامل ہیں لیکن سرپرستی قوانین میں اب بھی کسی سرگرمی کا حصہ بننے کے لیے خواتین کو اپنے خاندان کے متعلقہ مرد سے اجازت لینا ضروری ہے۔

خواتین کا کردار

انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ایسے انتہا پسند ہیں جو دو مختلف جنسوں کے ملنے سے منع کرتے ہیں اور ایک مرد اور عورت کے درمیان اکیلے اور ساتھ کام کرنے کے فرق سے قاصر ہیں اور ان کے بہت سے خیالات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی زندگی سے متصادم ہیں‘۔

محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب انسان ہیں اورہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے‘۔

سعودی انتہا پسندی کی جڑیں

سعودی ولی عہد کی جانب سے اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ سعودی معاشرہ قدامت پسند اسلام کے سخت غلبے کا شکار تھا، جو انہیں 1979 میں ایران میں انقلاب اور مکہ میں جامع مسجد پر قبضہ کرنے والے انتہا پنسدوں سے ملا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس سے متاثر ہوئے تھے، خاص طور پر میری نسل کو اس بڑے سودے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’ یہ اصل سعودی عرب نہیں اور اصل سعودی عرب 60 اور 70 کی دہائی میں تھا جہاں ہم دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح عام زندگی گزارتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ’ 1979 کے واقعات سے قبل دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی خواتین کار کی ڈرائیونگ کرتی تھی، سعودی عرب میں فلمی تھیٹر تھے اور خواتین ہر جگہ کام کرسکتی تھیں‘۔

تزکیہ نفس کرنا

سعودی ولی عہد کی جانب سے انسداد کرپشن مہم کے دوران ریاست کے بڑے بڑے شہزادوں اور تجارتی شخصیات کے خلاف کارروائی کرنے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ سعودی عرب میں ہم نے جو کیا وہ بالکل ضروری اور قانونی اقدام تھا‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس دوران قیدیوں سے 100 ارب ڈالر غیر قانونی دولت کے وصول کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس کا مقصد پیسا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ بدعنوانوں کو سزا دینا تھا تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ جو کوئی بھی بدعنوانی کرے گا اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اپنی ذاتی دولت

سعودی ولی عہد کے رہن سہن سے متعلق اٹھنے والے سوالات اور سعودی حکومت کی جانب سے نئے ٹیکسز کے نفاذ پر محمد بن سلمان نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی دولت ان کا نجی معاملہ ہے اور جہاں تک میرے نجی اخراجات کی بات ہے تو میں ’ کوئی غریب نہیں بلکہ امیر شخص ہوں اور نہ ہی میں گاندھی یا منڈیلا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی ولی عہد کا سعودیہ کو 'ماڈریٹ اسلامی ریاست' بنانے کا عزم

خیال رہے کہ کچھ روز قبل ایک رپورٹ میں پتہ چلا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دنیا کا سب سے مہنگا ترین گھر خریدا تھا اور وہ اس کے مالک بن گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’ بحیثیت ایک شخص میں اپنی ذاتی آمدنی امداد پر خرچ کرتا ہوں اور میں کم از کم 51 فیصد آمدن لوگوں پر اور 49 فیصد خود پر خرچ کرتا ہوں‘۔

علاوہ ازیں اپنے دورے کے دوران سعودی ولی عہد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منگل کو ملاقات کریں گے، اس ملاقات میں اصل ایجنڈا باہمی حریف ایران کے گرد ہوگا، تاہم سعودی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور یمن جنگ اور قطر کے ساتھ جاری سفارتی تنازعات سمیت جارحانہ سفارتی پالیسی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں