اسلام آباد: سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ( ر) آصف یاسین ملک نے تجویز دی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے وزیر اعظم کے ماتحت ایک بااختیار خصوصی سفیر تعینات کیا جائے تاکہ دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات کا قیام یقینی بنایا جاسکے۔

پاکستان ہاؤس تھنک ٹینک کی جانب سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرانی ہوگی کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور دونوں ممالک اس معاملے کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائیں۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط تعلقات کی ضرورت‘

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا نے ویتنام، عراق یا لیبیا کے مقامی لوگوں کی فکر نہیں کی تو وہ کیسے افغانستان کے لوگوں کا خیال کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا ہر بات کا الزم حقانی نیٹ ورک پر ڈال دیتا ہے اور یہ بھی الزام لگاتا ہے کہ یہ نیٹ ورک پاکستان میں کام کرتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کا تقریباً 60 فیصد علاقہ افغان حکومت کے اثر و رسوخ سے باہر ہے۔

دوسری جانب افغانستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے اور اس وقت تمام فیصلے امریکا اور بھارت کے اثر و رسوخ کے تحت ہوتے ہیں، جس کے باعث ملک میں بدعنوانی میں مسلسل اضافہ ہورہا اور ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا، جسے روکنے کے لیے تمام قوتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں کمزور ترجیحات کے باعث پاکستان بھی مشکلات کا سامنا کررہا اور رکاوٹوں کے باعث سی پیک کے مختلف منصوبے تاخیر کا شکار ہوگئے جبکہ فاٹا اصلاحات بھی روک دی گئی۔

آصف یاسین ملک نے کہا کہ امریکا کو افغانستان میں دخل اندازی روکنی چاہیے اور بھارت کو اس میں شامل کرنے کا فیصلہ مزید مشکلات پیدا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی میں امریکا نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر خرچ کیے لیکن اگر ان میں سے ایک چوتھائی حصہ بھی ترقیاتی کاموں پر لگاتا تو افغانستان میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

سابق سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں سرحدی نظام کو مضبوط بنانا چاہیئے اور دونوں ممالک کو دو طرفہ تجارت کے لیے اضافی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، پاک-افغان تعلقات میں بہتری کا خواہاں

اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل برائے اسٹریٹجک اور علاقائی تعلیم ڈاکٹر عبدالبقی امین کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کی جنگ کے دوران مشکل حالات میں پاکستانی حکومت اور عوام نے افغانستان کی مدد کی تھی اور 50 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی جبکہ ابھی بھی 20 لاکھ سے زائد مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔

تقریب سے خطاب میں پاکستان کے لیے یورپی یونین کے سفیر جین فرانکیوس کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں انسانوں کی حفاظت ضروری ہے لہٰذا دونوں ممالک کو مذاکرات کا عمل معطل نہیں کرنا چاہیے اور معیشت اور سیکیورٹی پر توجہ رکھ کر افغان مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔


یہ خبر 20 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں