لاہور ہائیکورٹ نے قصور میں 8 سالہ بچی زینب کا ریپ کے بعد قتل کیس کے مجرم عمران کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل خارج کردی۔

یہ فیصلہ لاہور ہوئی کورٹ کے جسٹس صداقت علی خان اور جسٹس شہرام سرور چوہدری پر مشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔

عدالتی فیصلے کے بعد عمران کے وکیل نے عدالت سے شکایت کی کہ ٹرائل کورٹ نے عجلت میں فیصلہ سنایا جس پر جسٹس صداقت علی خان نے استفسار کیا کہ جب عدالتیں بروقت فیصلہ کریں تو اپکو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

جسٹس شہرام سرور چوہدری کا کہنا تھا کہ مجرم عمران کو ڈی این اے میچ ہونے پر پکڑا گیا اور 1187 افراد میں سے صرف عمران کا ڈی این اے میچ ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

جسٹس صداقت علی خان نے عمران کے وکیل سے استفسار کیا کہ مجرم عمران نے سزا میں کمی کی اپیل دائر کی اور آپ اس کی بریت کی بات کررہے ہیں۔

عمران کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل اصل مجرم نہیں جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ تفتیش میں ثابت ہوچکا ہے کہ عمران ہی اصل مجرم ہے۔

زینب قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ قصور میں 4 جنوری کو لاپتہ ہونے والی 6 سالہ زینب کی لاش 9 جنوری کو ایک کچراکنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔

پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی تھی اور ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد کی موجودگی میں پریس کانفرنس کی تھی اور ملزم کی گرفتاری اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ملزم عمران علی کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی جو منظور کرلی گئی۔

جس پر عدالت نے زینب قتل کیس کے ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کوٹ لکھپت کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 12 فروری کو ملزم عمران پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

17 فروری کو اے ٹی سی نے زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانے بھی عائد کیا تھا۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو عمران علی نے اے ٹی سی کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور اپنی درخواست میں مجرم نے موقف اختیار کیا تھا کہ زینب قتل کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا جبکہ اے ٹی سی نے فیصلہ سناتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، تاہم عدالتِ عالیہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

یاد رہے کہ 5 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے زینب قتل کیس میں سزائے موت پانے والے مجرم عمران علی کی سزا کے خلاف اپیل پر عدالتی ریکارڈ اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے رپورٹ طلب کی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران علی کی جانب سے دائر اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔

تبصرے (0) بند ہیں