مردان: مشال قتل کیس کے مرکزی ملزم صابر مایار کو انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

عبدالولی خان یو نیورسٹی کے شعبہ ذرائع ابلاغ کے طالب علم مشال خان کے قتل میں نامزد ملزم صابر مایار کو 20 مارچ کو سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت لایا گیا۔

سماعت کے دوران پراسیکیوشن کی جانب سے ملزم کا 10 روزہ ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی دائر کی گئی جسے اے ٹی سی کے جج نے مسترد کرتے ہوئے انہیں 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا۔

خیال رہے کہ ملزم صابر مایار عبدالولی کان یونیورسٹی کا ملازم اور ایمپلائیرز یونین کا صدر تھا۔

مشال خان قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مشال خان کے اہلخانہ نے اے ٹی سی کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور 13 فروری کو مشال خان کے بھائی ایمل خان نے اپنی وکلا ٹیم سے مشاورت کے بعد کہا تھا کہ وہ ایبٹ آباد کی اے ٹی سی کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

مشال خان کے بھائی ایمل خان نے 14 فروری کو مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی ہری پور کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مشال خان قتل کیس میں ایبٹ آباد کی اے ٹی سی سے 26 افراد کی بریت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

مشال خان کے والد نے بھی 24 فروری کو اپنے بیٹے کے قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف 6 اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں دائر کردیں تھیں.

دوسری جانب سزا پانے والے مجرمان نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں مشال قتل کیس سے متعلق ہری پور کی اے ٹی سی کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 27 فروری کو 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔

یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے مرکزی ملزم کو 8 مارچ کو پولیس نے مردان کے علاقے چمتار سےگرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ رہے کہ اس کیس میں نامزد 61 ملزمان میں سے 60 کو گر فتار کیا چکا ہے جن میں ایک ہفتہ قبل پی ٹی آئی کے سابق تحصیل کونسلر عارف مردانوی بھی شامل ہے جسے بیرون ملک سے آتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا، جبکہ کیس کے ایک اور مرکزی ملزم صابر مایار نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

مشال کیس میں آخری ملزم اور یو نیورسٹی کا ملازم اسد کاٹلنگ گرفتار نہیں ہوسکا اور اس کی گر فتاری کے لیے پولیس کوششیں کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں