انسانی حقوق کی مبصر تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان پر جبری گمشدگیوں کے کسیز کو حل کرنے پر زور دیا ہے 'جن کے حوالے سے حتمی ذمہ داروں کا تعین کبھی نہیں کیا گیا'۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سےجاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'گمشدگی دہشت گردی کا ایک آلہ ہے اور اگر وسیع پیمانے پر اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہو تو وہ انسانیت کے خلاف جرم کررہے ہیں'۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ایک تاریخ رہی ہے جہاں گزشتہ ایک دہائی سے افغان سرحد سے منسلک علاقوں یا بلوچستان سے زیادہ شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔

حالیہ برسوں میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے اہم شہروں سے بھی جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ان معاملات میں ملوث ہونے سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اقوام متحدہ کے پاس اس وقت پاکستان کے 700 سے زائد کیسز زیر التوا ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے قائم کیے گئے کمیشن کی فہرست میں اضافی سیکڑوں کیسز ہیں۔

جبری گمشدگیوں کا شکار ہونے والے افراد میں بلاگرز، صحافی، طلبا، حقوق کے سرگرم کارکنان اور دیگر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن شامل ہیں۔

ایمنسٹی کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان سراسیمگی کی کیفیت کا شکار ہیں تاہم انھیں طویل قید کے بعد اپنے پیاروں کی واپسی کی ایک امید زندہ ہے۔

ایک این جی او کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سفارشات کو قبول کرلیا ہے جس کے تحت جبری گمشدگی ایک جرم ہے لیکن شہریوں کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے حوالے سے انٹرنیشنل کنونشن کی توثیق سے انکار کردیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس عسکری اداروں اور دہشت گردی پر تنقید کرنے والے 5 سوشل میڈیا کارکنان بھی لاپتہ ہوگئے تھے جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 4 افراد کو رہا کردیا گیا تھا تاہم پانچویں کی قسمت کے حوالے معلومات سامنے نہیں آسکیں کہ وہ کس کی حراست میں اور کہاں موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں