اسلام آباد: بین الااقوامی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے وعدے کے مطابق نیشنل الیکڑک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وفاقی حکومت کو بجلی کے صارفین پر تین نئے سرچارجز عائد کرنے کی اجازت دے دی۔

بجلی چوری، سسٹم لاسز اور پاور کمپنیوں سے عدم وصولی کے باعث صارفین سے 1 روپے 55 پیسے فی یونٹ وصول کیا جائے جو کہ مجموعی طور پر 110 ارب روپے بنتے ہیں۔

یہ پڑھیں: آئی ایم ایف کا دباؤ: حکومت کی بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تیاری

نیپرا کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ نیپرا کے قانون سیکشن 31 (5) کے تحت وہ وفاقی حکومت کو اجازت دے سکتی ہے تاہم موجودہ ٹیرف میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

نیلم ، جہلم سرچارج کی مد میں 10 پیسہ فی یونٹ وصول کیا جائے گا جس سے سالانہ 7ارب 50 کروڑ روپے وصول ہو سکیں گے جبکہ فنانسنگ کوسٹ سرچارج 43 پیسہ فی یونٹ ہوگا جس سے مجموعی طور پر 30 سے 32 ارب روپے کی وصولی ہو گی۔

تیسرا ’ٹیرف ریشنلائزیشن سرچارج‘ ہو گا جس کی فی یونٹ قیمت 1 روپے 02 پیسہ ہو گی تاکہ حکومت کی جانب سے ملنے والی سبسڈی کو کم کیا جائے سکے لیکن اس سرچارج کی قیمت ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے تناظر میں ہو گی اور اندازے کے مطابق سالانہ 70 ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہو سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کے بل میں نمایاں کمی لانا چاہتے ہیں؟

ریگولیٹرز کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ لاہور ہائی کورٹ نے 29 مئی 2015 میں مذکورہ سرچارجز کو غیر آئینی قرار دیا تھا بعدازاں وفاقی حکو مت نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیصلے کو چینلجز کیا جہاں فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا۔

اس حوالے سے نیپرا کے عہدیدارنے بتایا کہ ’نیپرا نے اپنی طرف سے کوئی سرچارجز نہیں لگائے بلکہ یہ وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے اور نیپرا وفاقی حکومت کے تابع ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ نیپرا ایکٹ 1997 کے سیکشن 31 (5) کے تحت وفاقی حکومت مجاز ہے کہ وہ کوئی بھی سرچارج لگا سکتی ہے جس می نیپرا کی حمایت بھی شامل ہو۔

مزید پڑھیں: ’گیم چینجر منصوبہ، پاکستان کی تقدیر بدل دے گا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جانب سے وصول میں ناکامی کے باعث مالی نقصان ہو رہا ہے جبکہ پانچ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکو) کی نااہلی کے باعث فنانسنگ کوسٹ سرچارج خالصاً بجلی کے صارف پر اضافی بوجھ ہے‘۔

ریگولیٹر نے بتایا کہ متاثرین وفاقی حکومت سے سرچارج کے حوالےسے اپنی شکایت جمع کرا سکتے ہیں۔


یہ خبر 22 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں