پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیئے دن چاہے کتنا ہی مختلف اور روٹین سے ہٹ کر کیوں نہ ہو، ان کے لیے صبح کے معمولات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، چند گھنٹوں میں بہت سے کاموں کو کسی مشین کی مانند نمٹاکر انھیں وقت پر کام کے لیے روانہ ہونا ہوتا ہے۔

14 مارچ 2018 کی وہ صبح بھی ہر روز کی مانند تھی، روز کی طرح بغیر ناشتہ بھاگم بھاگ گھر سے روانہ ہوئی ہی تھی کے راستے میں واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے میسجز کی یکدم ایسی بھرمار ہوئی کے دل ہی بول اٹھا کہ یااللہ خیر، مگر بہت سی دعاؤں کے باوجود خیر نہیں تھی، ایک گھنٹے کے اندر دنیا بھر کے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر مایہ ناز سائنسدان اور ماہر فلکیات اسٹیفن ہاکنگ کی وفات کی خبر چھا چکی تھی۔

میرے دوست احباب دن بھر مجھ سے تعزیت کرتے رہے، کیوں کہ وہ میری اس عظیم انسان سے جذباتی لگاؤ اورانسیت سے واقف تھے، اسٹیفن ہاکنگ سے میرا پہلا تعارف چند برس قبل ان کی کتاب 'اے بریف ہسٹری آف ٹائم' کے ذریعے ہوا، اس وقت میں یونیورسٹی آف بلوچستان میں گریجویشن کی طالبہ تھی، 'وقت کا سفر ' 1988 میں منظر عام پر آنے کے بعد ایک طویل عرصے تک بیسٹ سیلر ہونے کا اعزاز رکھتی ہے، اور اسے اب تک 40 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکاہے، اگرچہ یہ کتاب غیر سائنسی اصطلاحات کے ساتھ اس قدر سادہ اور قابل فہم انداز میں لکھی گئی تھی کہ سائنس اور طبیعات کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اسے بہ آسانی سمجھ سکے، مگر میں ایک ایسی یونیورسٹی کی طالبہ تھی جہاں اساتذہ بمشکل سلیبس کور کرواتے ہیں اور طلبہ میں تحقیق وجستجو پیدا کرنے کا کوئی تصور ان کے پاس نہیں ہے، طبیعات میں غیر معمولی دلچسپی رکھنے اور تعلیمی کیریئر کی ابتدا سے اچھی کار کردگی دکھانے کے باوجود اس کتاب میں درج کلاسیکل اور کوانٹم فزکس کے قوانین ،زمان و مکاں، ٹائم ٹریول اور کائنات کی ابتداء اور ارتقاء سے متعلق بہت سی تفصیلات کو سمجھنا میرے لیے زندگی کا پہلا دلچسپ تجربہ اور چیلنج ثابت ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ: معذوری سے کائنات کی تسخیر تک

میرے اسا تذہ میرے طبعی رجحان کو سمجھنے کے بجائے مجھے کوانٹم فزکس کے لگے بندھے سلیبس پر چلانے پر مصر تھے۔ مگر میں اس کو رٹنے یا محض امتحانات پاس کرنے کے لیے ازبر کرنے سے چند قدم آگے بڑھ کر ان قوانین کے ذریعے اپنے ارد گرد کے ماحول، واقعات، مجموعی رویوں اور سب سے بڑھ اس کائنات اور انسان کی تخلیق کے اولین مقصد کو سمجھنا چاہتی تھی، یہ وہ سوال ہے جو ہر اس شخص کے ذہن کے دریچوں میں بھٹکتا رہتا ہے، جو محض کھانے پینے، سونے جاگنے اور روٹین کی زندگی گزارنے کے زندہ نہیں ہے۔

یقینا تلاش و جستجو کے اتنے برسوں میں، میں اس کا ایک قلیل حصہ ہی سمجھ پائی ہوں، مگر یہ اعتراف کرتے ہوئے بہت فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اس دوران میرے سب سے بڑے استاد 'سر اسٹیفن ہاکنگ' تھے۔

—فوٹو: پیپل میگزین
—فوٹو: پیپل میگزین

ابتداء میں میرا ان سے صرف الفاظ کا یا کتاب کا تعلق تھا، ’وقت کا سفر‘ کے دونوں ایڈیشنز کو پڑھ کر نہ صرف بنیادی کوانٹم فزکس اور علم فلکیات کے بارے میں گراں قدر معلومات حاصل ہوئیں، بلکہ اسی سے نظریہ اضافیت کے کچھ نئے پہلو بھی میرے مشاہدے میں آئے، میرا ایمان ہے کہ اگر آپ کسی شے کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے تو اس کا اعتراف کرنے میں ہر گز شرم یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ یہی شرم آپ کے تجسس اور تحقیق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔

لاعلمی گناہ نہیں ہے، مگر اس لاعلمی پر قانع ہو کر بیٹھ جانا اصل جہالت ہے، میں نے اسکول کی کتابوں سے یونیورسٹی تک آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو صرف ایک ہی رخ سے جانا اور سمجھا، یہ اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب وقت کا سفر ہی تھی، جس کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ نظریہ اضافیت دراصل بلیک ہولز کی موجودگی کی پیش گوئی بھی کرتا ہے، اور بلیک ہول خلاء میں ایک ایسے شے کو کہا جاتا ہے، جس کے گرد ثقلی دباؤ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہاں سے روشنی بھی فرار نہیں ہو سکتی۔

اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولز پر اپنی تحقیقات کا آغاز 1960 کے عشرے میں موٹر نیورون کی بیماری کی تشخیص کے فورا بعد کیا تھا، اگرچہ ڈاکٹرز کے مطابق وہ صرف 2 برس اور جی سکتے تھے، مگر اس باہمت انسان نے لمحہ لمحہ ساتھ چھوڑتے اعضاء کے ساتھ تحقیق کے لیے ایسی فیلڈ کا انتخاب کیا جس سے اس دور میں عوام و خواص لاعلم تھے۔

مجھے ہاکنگ ریڈی ایشنز کے ذریعے ہی پتا لگا کہ وقت میں سفر اور بلیک ہول سے مادے کا سلامت نکل آنا بھی ممکن ہے، مگر ایک بلیک ہول سے کسی دوسری کائنات میں داخل ہونے والا شخص بلکل تبدیل شدہ ہوگا، یعنی اسے ایک 'نیا جنم' بھی کہا جاسکتا ہے، اگرچہ وقت میں سفر کا یہ تصور ابھی تک متنازع ہے، مگر ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ کے بعد 'بلیک ہول اینڈ بیبی یونیورس 'اور 'یونیورس ان اے نٹ شیل' کے ذریعے میرا ہاکنگ سے تعلق کچھ اور گہرا ہوتا چلا گیا، ایسا نہیں ہے کہ میں نے اتنے برسوں میں صرف اسٹیفن ہاکنگ کو ہی پڑھا ہے، مجھے اس زندگی میں میچو کاکو سے لیکر نیل ڈی گراس ٹائسن تک ہر مصنف کی نمایاں کتابیں پڑھنے کا موقع ملتا رہا ہے، مگر میرے غیر معمولی تجسس اور اشیاء و قوانین کو ان کے اصل کے ساتھ سمجھنے کے جنون کو ہمیشہ ہاکنگ کے الفاظ سے تسکین ملی۔

مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ اپنے دور کے دوسرے سائنسدانوں سے مختلف کیوں؟

اگرچہ میں نے اپنے طبعی رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سوچ کر طبیعات کے مضمون کا انتخاب کیا تھا، مگر پاکستان کے تعلیمی نظام کی خرابیوں کے باعث آج کی نسل کی اکثریت کی طرح میں بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار تھی، ہر نئے سیمسٹر میں نئے مضامین کی بھرمار اور اساتذہ کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث میری فزکس میں دلچسپی روز بروز کم ہوتی جارہی تھی اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں سنجیدگی سے کسی اور مضمون کے انتخاب کا سوچنے لگی، یہ صرف میرا مسئلہ نہیں تھا، آئن اسٹائن سے لیکر ہمارے بعد آنے والی نسل بھی شاید اسی طرح کی الجھنوں کا اس وقت تک شکار رہے گی جب تک اساتذہ طلبہ کے رجحان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔

—فوٹو: اسکائے نیوز
—فوٹو: اسکائے نیوز

اگرچہ مجھ میں آئن اسٹائن جیسی ذہانت اور غیر معمولی صلاحیتیں تو نہ تھیں، مگر غیر معمولی تجسس ضرور تھا، اسی تجسس نے مجھے اسٹیفن ہاکنگ کی کتابوں کے بعد ان کے آن لائن لیکچرز ، انٹرویوز اور دیگر سرگرمیوں کی طرف متوجہ کیا، جن کی بدولت نہ صرف میرا مورال بلند ہوا بلکہ مجھے زندگی اور انسانی رویوں کو بھی قریب سے اور بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا، بسا اوقات کوئی واقعہ جو دوسروں کے لیے معمولی اہمیت رکھتا ہے، ہماری زندگی پر دور رس اثرات مرتب کر تا ہے۔

میرے لیے بھی اسٹیفن ہاکنگ کے یہ الفاظ زندگی تبدیل کرنے والا لمحہ ثابت ہوئے کہ ' اگر آپ کو قسمت سے سچی محبت میسر آ گئی ہے تو اسے کسی صورت بھی گنوانا نہیں چاہیے'، میں طویل عرصے تک زندگی میں خوشیاں، امنگیں اور محبتیں تلاشتی رہی تھی، مگر یہ ادراک مجھے کچھ دیر سے ہوا کہ محبت کو ڈھونڈا نہیں جاتا، اس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تو ہمارے اندر موجود ہے، آپ جتنی محبتیں بانٹیں گے، جتنی آسانیاں تقسیم کریں گے آپ کی زندگی اتنی پر سکون اور سہل ہوتی چلی جائے گی، کئی دفعہ جب میں وقتی ناکامی سے شدید مایوس ہوکر دلبرداشتہ تھی، سر ہاکنگ میرا ہاتھ تھام کر مجھے مایوسیوں کی دلدل سے کھینچ نکال لائے، کب، کس وقت، کن لمحوں میں وہ سر ہاکنگ سے بابا ہاکنگ بنے مجھے علم بھی نہ ہوسکا اور پھر مرتے دم تک وہ میرے لیے'بابا ہاکنگ 'ہی رہے۔

میں ایک ایسے معاشرے میں جیتی ہوں جہاں کسی جسمانی کمی یا معذوری کو قابل نفرت سمجھا جاتا ہے، جہاں ہاتھ تھام کر آگے بڑھانے والے بہت کم اور ہر بڑھتے قدم پر ٹھوکر مار کرگرانے والے ہر موڑ پر مل جاتے ہیں، میں نے جانا کہ کسی بے سہارا، حالات کے مارے اور زندگی کے ستائے کو سہارا دیکر اسے خوشیوں،امنگوں اور ایک کامیاب زندگی کی طرف کس طرح لایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اسٹیفن ہاکنگ کو ایسی ٹیکنالوجی میسر آگئی تھی جس کی بدولت وہ پورے مفلوج جسم کے باوجود صرف گالوں اور پلکوں کی حرکت سے اپنی بات دنیا کو سمجھا سکتے اور اپنے الفاظ محفوظ کر سکتے تھے، مگر میرے وطن میں نہ جانے کتنے ہاکنگ جیسے قابل اور باصلاحیت افراد بستے ہیں، جنہیں ان کی جسمانی کمی کے باعث زندگی کے ہر شعبے میں دھتکارا جاتا ہے، جنہیں نہ تعلیمی سہولیات میسر آتی ہیں نہ ہی ملازمت کے مواقع اور سب سے بڑھ کر اپنے اور پرایوں کے تکلیف دہ رویے ان کو مزید زندہ درگور کر دیتے ہیں۔

—فوٹو: ووکس
—فوٹو: ووکس

یہ بھی پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ کے لیے زندگی کی سب سے بڑی مسٹری

شاید میرا یہ خواب، خواب ہی رہے کہ میرے وطن میں بھی جسمانی امراض کے شکار افراد کو جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ایسے سہارے میسر آجائیں کہ وہ لوگوں پر بوجھ نہ رہیں، مگر میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اپنے قلم اور الفاظ کے ذریعے اسٹیفن ہاکنگ کا علم پھیلانے کی کوشش ضرور کرسکتی ہوں۔

میں پاکستان میں جسمانی امراض کے شکار زندگی سے بیزار لاکھوں افراد تک اسٹیفن ہاکنگ کا یہ پیغام ضرور پہنچا سکتی ہوں کہ 'جن کے لیے زندگی مہربان نہیں ہوتی، انہیں جدوجہد کرکے اسے مہربان بنانا پڑتا ہے، مثبت طرز فکر کے ساتھ زندگی کی آزمائشوں کو چیلنج سمجھ کر آگے بڑھیے، آپ کی مسیحائی کے لیے آسمان سے کوئی اوتار نہیں آئے گا، لہذا ٰمعجزوں کی راہ تکنا چھوڑ دیجیے،زندگی سے لڑنے، لوگوں کے تکلیف دہ رویوں اور پہ در پہ کی ناکامیوں پر آنسو بہانے کے بجائے خود کو اس قابل بنائیے کہ کل یہ دنیا اسٹیفن ہاکنگ کی طرح آپ کی صلاحیتوں کا بھی ازخود اعتراف کرے۔


صادقہ خان نےیونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ اے آر وائی اور ڈان نیوز پر سائنس اور سپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Bilal Iqbal Mar 23, 2018 12:22pm
Nice article, sister saadeka your article will be helpful for many of the readers