لاہور: سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی سندھ ہائی کورٹ کے انسپیکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو عہدے پر برقرار رکھنے کے فیصلے کے خلاف اپیل خارج کردی گئی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 18 جنوری کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے اے ڈی خواجہ کے تبادلے کو روکا تھا اور کہا تھا کہ سندھ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے دور کے حساب سے قانون بنا سکتی ہے۔

سندھ حکومت نے پولیس آرڈر 2002 کو منسوخ کرتے ہوئے پولیس ایکٹ 1861 بحال کیا تھا اور آئی جی سندھ کا تبادلہ کیا تھا تاہم کچھ غیر حکومتی اداروں نے حکومت کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اے ڈی خواجہ تقرری کیس: ’یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کا کیس ہے‘

بعد ازاں عدالت نے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کے تبادلے سے روکتے ہوئے آئی جی سندھ کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا تھا۔ صوبائی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سندھ حکومت کی جانب سے دائر ہونے والی اپیل میں کہا گیا تھا کہ سیندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں قانونی غلطیاں موجود ہیں اور یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی خودمختاری اور بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ قانون سازوں کو ان کے آئینی کام سے روکا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو ترمیم اور قوانین میں تبدیلی سے روکنے سے قانون سازوقں کو گہری ٹھیس پہنچی ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ غلط فیصلے پر پہنچی ہے کہ آئی جی کے لیے 3 سال کی مدت کو یقینی بنایا جائے اور اس مدت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو کام جاری رکھنے کا حکم

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کا صوبائی پولیس چیف کی بھرتی میں کردار نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بگاڑ دیا ہے جس میں صوبوں کی خود مختاری شامل ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعاء کی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو ختم کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اپنے اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت سندھ ہائی کورٹ کے ہدایات کی روشنی میں نئے قانون بنا سکتی ہے۔

یہ خبر 23 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں