سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما میاں رضا ربانی نے سابق صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کو انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام '2 رائے' میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اگر جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان واپس نہیں بھی آتے تو اس صورت میں بھی ان کا ٹرائل ہونا چاہیے، کیونکہ مقدمے کو ان کی غیر حاضری میں بھی چلایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر مشرف کے خلاف غداری کیس کو چلایا جائے گا تو اس سے مستقبل میں مارشل لاء اور کسی بھی غیر آئینی اقدام کا راستہ روکا جاسکتا ہے، لہذا یہ بہت ضروری ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں 18ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 کے حوالے سے قانون سازی کی، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے ذہنوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔

سابق چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر متحد نہیں ہوں گے، اُس وقت تک ملک میں آئین و قانون کی بلادستی ممکن نہیں اس لیے سب کو مل کر اس مقصد کو پورا کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے غداری کیس کے حوالے سے 8 مارچ کو ہونے والی عدالتی کارروائی کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

مزید پڑھیں: 'پرویز مشرف وطن واپس نہیں آئیں گے'

تاہم 20 مارچ کو ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے تصدیق کی کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو ناصرف پاسپورٹ کی تاریخ تنسیخ سے 2 ماہ قبل نیا پاسپورٹ جاری ہوا بلکہ انہیں ماضی میں ریاست کا سربراہ ہونے کے ناطے دوبارہ سفارتی پاسپورٹ تفویض کیا گیا۔

دوسری جانب وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے پرویز مشرف کے پاسپورٹ کی تجدید کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم، میں جائزہ لوں گا‘۔

پرویز مشرف کی ’سیکیورٹی‘ کی درخواست

سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف وطن واپس آنا چاہتے ہیں لیکن اپنی سیکیورٹی سے متعلق شدید تحفظات کا شکار ہے ہیں جس پر عدالت نے حکم دیا کہ وہ پرویز مشرف کی سیکیورٹی کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دیں۔

اختر شاہ نے وزارت داخلہ کو پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے ان کی ’فول پروف سیکیورٹی‘ کی درخواست کردی۔

وزارت داخلہ کو پرویز مشرف کے وکیل کی یہ درخواست 13 مارچ کو موصول ہوئی اور اس حوالے سے اس کی مشاورت جاری ہے۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 5 اپریل 2013 کو پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا تھا، جس پر پرویز مشرف نے 6 مئی 2014 کو اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے جون 2014 میں مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے فیصلہ کالعدم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مشرف کی واپسی کی یقین دہانی:’اداروں کو کارروائی سے روک دیا‘

وفاق کی درخواست پر 23 جون 2014 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ ہونے تک سندھ ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیا۔

بعد ازاں 17 مارچ 2016 کو حکومت نے پرویز مشرف کا ای سی ایل سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے انھیں علاج کے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

19 جولائی 2016 کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے غداری کیس میں سابق صدر کی جائیداد ضبط اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔

خصوصی عدالت کے 3رکنی بینچ نے سابق صدر کی گرفتاری تک کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم کی حاضری کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا اور قانون کے مطابق ملزم کا غیر حاضری پر ٹرائل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں