لاہور: سپریم کورٹ نے ملک کے تمام میڈیکل کالجز کو فیس کی مد میں 8 لاکھ 50 ہزار سے زائد وصول کی گئی رقم طلبہ کو 15 روز میں واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

میڈیکل کالجز کی جانب سے طلبہ سے بہت زیادہ فیسوں کی وصولی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کی گئی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے تنبیہ کی کہ جن میڈیکل کالجز نے عدالتی احکامات پر عمل نہ کیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھی میڈیکل کالجز کے عہدیداران کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت اتوار تک ملتوی کر دی۔

عدالت نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے سابق سربراہ ڈاکٹر عاصم کے دور میں قوائد کے برعکس رجسٹرڈ ہونے والے میڈیکل کالجز کے معاملہے پر بھی غور کیا۔

مزید پڑھیں: نجی میڈیکل کالج کیس: ڈاکٹر عاصم کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم

عدالت نے معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور ایف آئی اے کو بھجواتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔

واضح رہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران نجی میڈیکل کالجز مختلف چارجز لگا کر اپنی فیسیں کئی گنا بڑھا چکے ہیں، جبکہ ان پر داخلے کے وقت طلبہ سے ’ڈونیشنز‘ لینے کا بھی الزام لگایا گیا۔

سپریم کورٹ نے 2010 میں معاملے کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ایک طالب علم کی سالانہ فیس 5 لاکھ 50 ہزار روپے ہوگی، جس میں سال میں 7 فیصد اضافہ ہوگا۔

سال 2013 میں فیس سالانہ فیس بڑھا کر 6 لاکھ 42 ہزار کردی گئی، لیکن نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے کیے وعدوں میں سے متعدد پورے نہ ہوئے، جن میں کالجز کے ساتھ واقع ہسپتالوں کے 50 فیصد بیڈز پر طلبہ کو مفت علاج اور دیگر سہولتیں فراہم کرنا بھی شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انتظامیہ کو مزید نئے میڈیکل کالجز کی منظوری سے روک دیا گیا

2016 میں ’پی ایم ڈی سی‘ نے طلبہ کے داخلوں کے لیے مرکزی داخلہ پالیسی متعارف کرائی جس کا مقصد نجی میڈیکل کالجز کو طلبہ سے ڈونیشنز لینے سے روکنا تھا، تاہم کالجز نے اس پر عملدرآمد سے انکار کردیا اور ملک بھر کی متعدد عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کر لیا۔

سال 2017 میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے ایک بار پھر نجی کالجز سے اس شرط پر مذاکرات کا آغاز کیا کہ وہ طلبہ کو تمام سہولیات اور اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کریں گے، جبکہ ان سے ڈونیشنز بھی نہیں لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں