اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے غیراعلانیہ بیرون ملک اثاثوں کی کھوج، اسے واپس لانے اور مذموم طریقے سے غیرملکی زرمبادلہ کی ترسیل روکنے کے لیے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔

اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سربراہی میں ماہرین معیشت کی نگرانی اور مشاورت سے ٹرم آف ریفرنس (ٹی او آر) تیار کیے گئے جسے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے۔

یہ پڑھیں: معیشت سے متعلق کیسز میں احتیاط سے کام لیا جائے، عدالتی معاون کا انتباہ

چیف جسٹس ثاقب نثار نے مذکورہ ٹی او آرز سے متعلق وفاقی حکومت کو تین ہفتے میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پاکستانیوں کے غیراعلانیہ بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ازخود کیس کی سماعت کررہے ہیں۔

دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی سربراہی میں 12 رکنی کمیٹی غیر ملکی زرمبادلہ، ٹیکس، دوطرفہ تجارتی تعلقات کا جائزہ لے گی جس کی آڑ میں غیرقانونی طریقے سے غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل کا مذموم کام جاری ہے۔

مذکورہ کمیٹی عدالت عظمیٰ کو تجویز پیش کرےگی کہ بیرون ملک میں غیر اعلانیہ اثاثوں کی واپسی کس طرح ممکن ہو سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک اثاثوں کی واپسی: عدالت نے کمیٹی کی سفارشات مسترد کردیں

اس حوالے سے بتایا گیا کہ 12 رکنی کمیٹی رضاکارانہ طور پر اپنے غیر ملکی اثاثوں کی نشاندہی اس کی واپسی یا اس کا ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے مراعات کی تجویز بھی پیش کرے گی۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی کمیٹی میں فنانس سیکریٹری عارف احمد خان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین طارق پاشا، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل خالد انور اور ڈاکٹر اکرام الحق، چارٹرڈ اکاؤنٹننٹ شبرزیدی، ٹیکس کنسلٹنٹ محمد مانڈوی والا، ایڈنشنل اٹارنی جنرل محمد وقار رانا، صنعت کار بشیر علی محمد اور طارق پاشا، سینئر بینکر عارف باجوہ اور سابق ایف بی آر چیئرمین نثار احمد خان شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: قانونی سقم کے باعث ایف بی آر منی لانڈرنگ اختیارات سے محروم

کمیٹی اپنی صوابدید پر کسی بھی ممبر کو شامل کرنے کی مجاز ہوگی۔

یاد رہے کہ 25 مارچ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذیلی ادارے انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ (آئی اینڈ آئی) کی جانب سے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اثاثوں اور اکاؤنٹ بنانے والے 270 با اثر شخصیات کے خلاف جاری کارروائی قانونی سقم کے سبب تعطل کا شکار ہونے کی خبر شائع ہوئی۔


یہ خبر 27 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں