کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت ( اے ٹی سی ) نے معروف سماجی کارکن اور اورنگی پاور پروجیکٹ ( او پی پی ) کی سابق سربراہ پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث 5 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

پانچوں ملزمان ایاز شامزئی عرف سواتی، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف احمد علی عرف پپو کشمیری، محمد عمران سواتی اور محمد رحیم سواتی پر مارچ 2013 میں منگوپیر روڈ پر پروین رحمٰن کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے سینٹرل جیل میں قائم جوڈیشل کمپلیکس میں ملزمان کا ٹرائل کیا تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کیس لڑنے کا انتخاب کیا۔

مزید پڑھیں: ’پروین رحمٰن کے قتل میں طالبان نہیں، لینڈ مافیا ملوث تھی‘

دوران سماعت پروسیکیوشن کا کہنا تھا کہ کچھ زیر حراست ملزمان نے دوران تفتیش اس جرم میں ملوث ہونے کا اقرار کیا تھا اور کہا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے طالبان عسکریت پسندوں کو پروین رحمٰن کو قتل کرنے کا کہا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما ایاز شامزئی اور رحیم سواتی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کے قریب رہ رہے تھے اور وہ اس مخصوص حصے کو حاصل کرکے کراٹے سینٹر بنانا چاہتے تھے لیکن پروین رحمٰن نے اس سے انکار کردیا تھا۔

پروسیکیوشن نے کہا کہ جنوری 2013 میں رحیم کے گھر پر پروین رحمٰن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس ملاقات میں تمام ملزمان موجود تھے اور ملاقات میں تحریک طالبان پاکستان کے مقامی کمانڈر موسیٰ اور محفوظ اللہ عرف بھالو کو سماجی رہنما کو قتل کرنے کے لیے اجرت دی گئی۔

عدالت میں سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ اس کیس میں دو مزید ملزمان قاری بلال اور محفوظ اللہ کو قتل کیا جاچکا جبکہ بلال احمد عرف ٹینشن ناکافی ثبوتوں کے بعد رہا ہوچکا تھا اور موسیٰ، شلدار خان اور دیگر مفرور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم

خیال رہے کہ پروین رحمٰن کے قتل کا مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 34 درج کی گئیں اور یہ مقدمہ پیر آباد پولیس اسٹیشن میں درج ہوا تھا، بعد ازاں اس میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 بھی شامل کی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے اس کیس کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا اور 2014 میں عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ عدالتی تحقیقاتی رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ اس قتل کی ایک آزاد، ایماندار پولیس افسر سے دوبارہ تحقیقات کرائی جائے۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ روین رحمن کے قتل کے اگلے ہی روز قاری بلال کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں، تاہم رپورٹ کے مطابق اس پراسرار انکاؤنٹر اور پستول کی برآمدگی نے انہیں متاثر نہیں کیا تھا۔


یہ خبر 29 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں