اسلام آباد: پنجاب کے محکمہ زراعت نے خبردار کیا ہے کہ متعدد وجوہات کے باعث پنجاب سے رواں برس گندم کی پیداوار 1 کروڑ 90 لاکھ ٹن سے زائد نہیں ہو سکے گی۔

واضح رہے کہ اگر پنجاب میں گندم کی پیداوار ایک کروڑ 90 لاکھ ٹن رہتی ہے تو تناسب کے اعتبار سے یہ گزشتہ 5 برس میں سب سے کم پیداوار ہوگی اور اندازے کے مطابق کسانوں کو مجموعی طور پر 32 ارب 20 کروڑ روپے کا مالی خسارہ ہوگا جبکہ گزشتہ سال گندم کی پیداوار 2 کروڑ ٹن رہی تھی۔

یہ پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق دماغی امراض سے بھی ہے

گندم کے ایکسپورٹرز اور کسانوں کا کہنا ہے کہ اصل خسارہ تخمینے سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔

اس ضمن میں خیال رہے کہ ملک میں گندم کی مجموعی پیداوار 2 کروڑ 64 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی تاہم پنجاب کی جانب سے 2 کروڑ ٹن کا حصہ شامل ہوتا ہے۔

محکمہ زراعت کے ریکارڈ کے مطابق صوبے کے جانب سے فروری کے ابتدائی 10 روز میں 41 ہزار کیوبک فٹ فی سکینڈ (کیوسک) پانی کا تقاضہ کیا گیا تاہم صرف 12 ہزار کیوسک پانی فراہم کیا گیا۔

ریکارڈ کے مطابق اگلے 10 دن میں 51 ہزار کیوسک پانی کی طلب کے مقابلے میں صرف 29 ہزار 200 کیوسک پانی فراہم کیا گیا جبکہ فروری کے آخری 10 ایام میں مجموعی طور پر 34 ہزار 700 کیوسک پانی دیا گیا لیکن طلب 47 ہزار کیوسک کی تھی۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ مارچ کے مہینے میں حالات بہتر نہیں ہو سکے اور 52 ہزار اور 59 ہزار کیوسک پانی کی طلب کے بدلے میں بلترتیب 29 ہزار 400 اور 23 ہزار 200 کیوسک پانی فراہم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: منگلہ ڈیم میں پانی کی شدید قلت کے باعث بجلی کی پیداوار بند

اس ضمن میں بتایا گیا کہ پنجاب نے ملکی سطح پر پانی کی کمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دریائے سندھ سے ماضی کے مقابلے میں 36 فیصد کم پانی کا تقاضہ کیا۔

فارمر ایسوسی ایٹ پاکستان (ایف اے پی) کے رکن آباد خان نے بتایا کہ ‘مطلوبہ طلب سے کم پانی کی فراہمی کے نتیجے میں گندم کی فصل کو غیر معمولی نقصان پہنچا، گزشتہ برس کے مقابلے میں صوبے بھر میں فصل کا قد بھی چھوٹا ہے’۔

محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا تھا کہ امسال ربیع میں 30 فیصد بارش کم ہوئی اور مارچ میں اوسطاً درجہ حرارت کے مقابلے میں 2 سے 3 ڈگری سیلسیس کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پانی اور بارش میں کمی سمیت درجہ حرارت میں اضافے سے فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ دوسری جانب غیر معیاری کھاد نے خسارے میں مزید اضافہ کردیا۔

مزید پڑھیں: کراچی کا مضافاتی قلعہ رتوکوٹ، جو ڈوبنے کے قریب

آباد خان نے بتایا کہ فضل کے ابتدائی 6 ہفتوں میں 80 فیصد کھاد درکار ہوتی ہے لیکن کسانوں کو اکتوبرسے دسمبر میں کھاد کی عدم دستیابی کی شکایت رہتی ہے اور پھر جنوری میں 39 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔

محکمہ زراعت میں ایک عہدیدار کے مطابق ایک کروڑ 64 ہزار ایکڑ زرعی زمین پر ایک کروڑ 25 ہزار ایکڑ پر فصل لگائی گئی لیکن باقی زرعی زمین پر 20 نومبر کے اواخر میں فصل کی بیجائی کی گئی۔

مذکورہ اعداد وشمار اور دیگر وجوہات کے پیش نظر کسانوں کا خیال ہے کہ پنجاب میں گندم 10 لاکھ ٹن اور سندھ میں گندم 5 لاکھ ٹن کم پیدا ہوگی اس طرح قومی سطح پر متعین پیداواری ہدف 2 کروڑ 64 لاکھ 40 ہزار ٹن سے کم ہو کر 2 کروڑ 50 لاکھ تک محدود ہو جائی گی۔

آباد خان نے موقف اختیار کیا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت مذکورہ نقصان کو محسوس کرنے سے قاصر ہے لیکن کسانوں کو 50 ارب روپے کا مالی خسارہ ہوسکتا ہے جو کہ کسان برداری کے لیے بے چینی کا باعث بن رہا ہے۔


یہ خبر 02 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 02, 2018 06:54pm
گندم کی پیداوار میں کمی سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضروت ہے۔