پاکستان مسلم لیگ (ن) 2013 کے انتخابات سے قبل اپنے پیش کردہ منشور پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کے باعث حکمراں جماعت کو قومی اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی۔

اس منشور میں قومی ایئر لائن (پی آئی اے)، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم)، واپڈا سمیت دیگر قومی مالیاتی اداروں کو خسارے کے دائرے سے باہر نکال کر مثبت اقتصادی اشاریوں کے لیے کارآمد اور خودمختار بنانا تھا۔

یہ وہ قومی ایجنڈا تھا جس کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔

یہ پڑھیں: گردشی قرضے دوبارہ 400 ارب روپے سے تجاوز کرگئے

مسلم لیگ (ن) کے منشور 2013 ریکارڈ پر موجود ہے کہ ‘قومی مالیاتی اداروں کو فعال رکھنے کے لیے سالانہ 400 ارب روپے درکار ہوتے ہیں اس لیے مذکورہ اداروں کو نجکاری اور ازسرنو تنظیم سازی کے ذریعے فائدہ مند بنایا جائے گا’۔

اس ضمن میں حکمراں جماعت کی کارکردگی افسوسناک رہی، 5 سال کا عرصہ گزر چکا لیکن ان میں سے کوئی بھی ادارہ وعدے کے مطابق مالیاتی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوا اور نہ ہی ان کی نجکاری اور تنظیم سازی کی گئی۔

مسلم لیگ (ن) نے وعدہ کیا تھا کہ خسارہ پہنچانے والے ریاستی اداروں کو غیر جانبدار اور پیشہ وارانہ بورڈ کے ذریعے ان کے چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کیے جائیں گے۔

منشور میں واضح ہے کہ ‘بورڈ کی تعیناتی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تقریری خالصاً میرٹ اور پیشہ وارانہ مہارت پر مشتمل ہو گی تاکہ وہ مالیاتی اداروں کو خسارے کی دلدل سے نکال سکیں’۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو عدلیہ سے کیا مسئلہ ہے؟

حقیقت کے برعکس پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل ملز تین سال بند کردیا گیا جس پر مجموعی طور پر 425 ارب سے زائد خسارے کا بوجھ ہے۔

قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی کارکردگی کچھ بہتر ہوئی لیکن مالیاتی لحاظ سے 350 ارب روپے کا نقصان ہوا جس کے بعد وہ فعال رہی دوسری جانب پاکستان ریلوے مسلسل خسارے کا شکار ہے اور پاور کمپنیوں کی خدوخال مجموعی طور پر پانچ برس قبل جیسی ہی ہیں۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے موجودہ مالیاتی اداروں سے متعلق تازہ رپورٹ 6 مارچ 2018 کو پیش کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ ‘صرف اسٹیل ملز کا مجموعی خسارہ 1200 ارب روپے (جی ڈی پی کا 4 فیصد) تک پہنچ چکا ہے’۔

حکومت کی مشاورت سے تیار کردہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ‘حکومت نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین بینک ڈویلپمنٹ بینک سے 2015 میں معاہدہ کیا کہ توانائی کے شعبوں میں 335 ارب گردشی قرضوں کو روکا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ن لیگ کی سیاست اور مریم نواز کا کردار

اس کے علاوہ معاہدہ کی رو سے مانیٹرنگ کے مربوط نظام کے ذریعے جون 2015 میں 314 ارب روپے کے نئے قرضوں کو جون 2018 میں 212 روپے تک محدود کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف کے مطابق توانائی شعبوں سے منسلک کمپنیوں میں گردشی قرضے مالی سال 16-2015 میں صفر تک آ گئے تھے تاہم جولائی 2016 میں 193 ارب روپے (جی ڈی پی کا 0.5 فیصد) تک پہنچ گئے اور بڑھتے بڑھتے دسمبر 2017 کے آخر تک 514 ارب روپے (جی ڈی پی کا 1.5 فیصد) کے نفسیاتی حد عبور کر گئے۔

مسلم لیگ (ن) نے شعبہ توانائی خصوصاً ڈسٹریبیوشن کمپنیوں (ڈسکو) میں کارپوریشن اور نجکاری کے ذریعے اصلاحات پر زور دیا تھا۔

منشور 2013 میں کہا گیا کہ بجلی کے بل کی ادائیگیوں اور وصولی کا نظام 100 فیصد بہتر بنایا جائے گا تاہم ڈسکو میں شامل کسی ایک کمپنی کو بھی کارپوریشن یا نجکاری میں نہیں داخل کیا گیا۔


یہ خبر 02 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں