اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریفرنڈم کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاق کو نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریفرنڈم کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ 2025 میں پانی کی سطح ختم ہوجائے گی اور ابھی سے ہی ملک میں پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں ڈیمز بننے چاہئیں، کالاباغ ڈیم کے معاملے پر صوبوں میں اتفاق نہیں ہے، مشترکہ مفادات کونسل نے کالا باغ ڈیم سے متعلق عوام کو آگاہی دینے کا فیصلہ دیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: عدلیہ پر جائز تنقید کرنی چاہیے، ہماری اصلاح ہوگی، چیف جسٹس

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سابق چیئرمین واپڈا نے کالا باغ ڈیم پر آگاہی شروع کی، اس پر چئیرمین واپڈا کو نکال دیا گیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت نے فیصلہ کرنا ہے اور حکومت نے پانی کی فراہمی کو دیکھنا ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران مجید نظامی کے آرٹیکل کا تذکرہ بھی ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجید نظامی نے 2007 میں واٹر بم کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا، آپ اسے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھیں۔

سماعت کے دوران درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ اگر نام کا مسئلہ ہے تو کالا باغ کی جگہ بینظر بھٹو ڈیم رکھ لیں لیکن یہ ڈیم پاکستان کا مستقبل ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ مسئلہ نام کا نہیں مسئلہ گہرا ہے، بعد ازاں عدالت نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ریفرنڈم کی درخواست پر وفاق کونوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے کہا کہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی آگاہی مہم کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اس پر بھی وفاق جواب دے، جس کے بعد کیس کی سماعت 15 دروز کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

پمز ہسپتال کا بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر کھولنے کا حکم

دوسری جانب سپریم کورٹ نے پمز ہسپتال کے بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر سے متعلق کیس میں بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر کھولنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پمز ہسپتال کا بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹرکھولنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پمز ہسپتال کے حکام سے استفسار کیا کہ بون میرو سینٹر بند کرنے کی وجہ کیا ہے، جس پر ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ پمزہسپتال اوریونیورسٹی کی علیحدگی کا معاملے التوا کا شکار ہے، 2 ڈاکٹرز اور ایک نرس کو مستقل نہ کرنے پر مسئلہ بنا اور 13 خطوط لکھنے کے باوجود وزارت کیڈ نے ملازمین کو مستقل نہیں کیا۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 3 لوگوں کی تقرری کی وجہ سے پورا سینٹر بند ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں ٹیک اوور کے چکر میں ہوں؟‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکار کے کرنے والے کام بھی عدالت کو کرنے پڑ رہے ہیں، پھر کہتے ہیں سپریم کورٹ کام میں مداخلت کرتی ہے، کیا ہر کام سپریم کورٹ نے کرنا ہے؟ حکومت اپنے کام خود کرے تو مداخلت نہیں کریں گے، لوگ کہتے ہیں ہم اپنے کام کی قربانی دے رہے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پمز ہسپتال کا بون میرو ٹرانسپلانٹ سینٹر کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ برطرف ملازمین کی فوری بحالی اور موجودہ عملے کے واجبات فوری ادا کیے جائیں اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے عملہ تعینات کیا جائے جبکہ نئی تعیناتیوں تک موجودہ عملہ کام جاری رکھے گا۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے 19 ویں ترمیم ، 58 ٹوبی اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف درخواست سمیت متفرق درخواستیں میرٹ پر پورا نہ اترنے اور غیر موثر ہونے پر خارج کردیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Malik USA Apr 02, 2018 08:52pm
You are 100% right CJ.