بین الاقوامی سینما میں فلمی سرگرمیوں کو بہتر طور سے متعارف کروانے کے لیے میلوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے، جس کا مقصد تازہ ترین ثقافتی سرگرمیوں اور فلموں کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ان میلوں کے ذریعے دنیا بھر میں کام کرنے والے فلم ساز ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ عالمی سینما میں یہ سرگرمیاں معمول سے جاری رہتی ہیں اور بہت کامیاب ہیں، لیکن پاکستانی فلمی صنعت اس سہولت سے تقریباً محروم ہے۔

حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ پہلو نظر انداز کیا جاتا رہا، مگر انفرادی حیثیت میں چند کوششیں ہوئیں، جن میں ایک سنجیدہ کوشش ‘کراچی فلم فیسٹیول‘ تھا، جسے کارا فلم فیسٹیول بھی کہا جاتا ہے۔ 2001ء میں شروع ہونے والا یہ فیسٹیول 8 برس جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اس فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر ’حسن زیدی‘ کے مطابق معاشی تعاون نہ ہونے کی بنیاد پر اس کو بند کرنا پڑا۔ اب اس کے بعد پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی ابتدا ہوئی ہے، اور اس میں بھی وزیرِ مملکت مریم اورنگزیب نے فنکاروں سے کئی وعدے کیے ہیں۔

2018ء میں ’پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ کے نام سے شروع ہونے والے اس فلمی میلے کی بنیاد ’کراچی فلم سوسائٹی‘ نے رکھی ہے، جس کی تخلیق کار اور صدر سلطانہ صدیقی ہیں جن کا ڈرامے کے شعبے میں بحیثیت پروڈیوسر طویل تجربہ ہے اور پاکستان کے ایک معروف نجی ڈرامہ چینل سمیت کئی منصوبے برسوں سے کامیابی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس سوسائٹی کے بورڈ ممبران میں فلم بالخصوص فیچر فلم کا کوئی باقاعدہ رکن شامل نہیں ہے، بلکہ حیرت انگیز طور پر اِس میں کئی ایسے نام بھی شامل ہیں جن کا فلم کے شعبے سے ہی کوئی تعلق نہیں، مثلاً ڈاکٹر عشرت حسین (سابق گورنر اسٹیٹ بینک)، امینہ سیّد (ایم ڈی، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی) اور ایسے کئی دیگر اراکین جن کو اس فلم سوسائٹی کے بورڈ ممبران میں شامل کیا گیا ہے۔

بہرحال کراچی فلم سوسائٹی کے تحت پہلا ’پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ حال ہی میں منعقد ہوا۔ فیسٹیول کے ایوارڈز کے لیے جیوری ممبران کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور رکھا گیا کہ اُن کا تعلق فلم کے شعبے سے ہی ہو، مگر اس کے ساتھ زیادہ تر جیوری ممبران کا تعلق صحافت کے شعبے سے ہے، یہ وہ نوجوان لکھاری ہیں جو فلمی ناقدین بھی ہیں یا پھر فلمی رپورٹنگ سے وابستہ ہیں۔ اس پہلو سے کئی سینئر صحافی چراغ پا بھی ہیں، مگر فلم فیسٹیول کی انتظامیہ کی طرف سے یہ ایک احسن اقدام ہے، جس کی تحسین ہونی چاہیے۔ پاکستانی فلمی صنعت کو نئے افکار اور نئے خون کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں 1200 سے زائد فلمیں دنیا بھر سے بھیجیں گئیں، جن میں سے تقریباً 150 سے زائد فلموں کو کراچی میں 6 مقامات پر اسکرین کیا گیا، جن میں نیوپلیکس سینما، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، اقراء یونیورسٹی (ناظم آباد، ڈیفنس کیمپس) آلائنس فرانسیز اور ٹی ٹو ایف شامل ہیں۔

مختلف ڈسکشن پینل کا انعقاد ضیاءالدین یونیورسٹی میں رکھا گیا، جس میں شرکت کے لیے بھارت سے 22 فلم ساز، اداکار، اسکرپٹ رائٹرز اور ڈائریکٹرز بھی شریک ہوئے۔ جرمنی، امریکا، یورپی ممالک، فلپائن اور دیگر ممالک سے بھی فلم سازوں نے شرکت کی۔ فلمی میلے میں فیچر فلموں کے علاوہ، شارٹ فیچر فلمز، ڈاکیومینٹریز کی اسکریننگ کا اہتمام بھی کیا گیا جبکہ 8 فلموں کے پریمیئر بھی منعقد کیے گئے جن میں پاکستانی اور غیر ملکی فلمیں شامل تھیں۔

فلم فیسٹیول سے پہلے موبائل اسکریننگ، سیمینارز، ورکشاپ کا انعقاد بھی ہوا۔ فیسٹیول کے تیسرے روز کراچی فلم سوسائٹی کی صدر سلطانہ صدیقی کی طرف سے سچل جیز بینڈ کی پرفارمنس اور ریڈ کارپٹ رکھا گیا، جس میں غیر ملکی مندوبین، پاکستانی شوبز سے تعلق رکھنے والے معروف فنکاروں سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔ چوتھے اور آخری دن فیسٹیول ایوارڈز کا اجراء کیا گیا، جس کی تقریب میں بھی شوبز سے تعلق رکھنے والی معقول تعداد شریک ہوئی اور عابدہ پروین نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے تقریب کو خوب رونق بخشی۔

فلم فیسٹیول کے تینوں دن تک ہونے والی گفتگو میں پاکستانی اور غیر ملکی فلم سازوں نے حصہ لیا۔

پہلے دن کی کارروائی

پہلے روز ہونے والی گفتگو میں پاکستانی فلم ساز عاصم رضا، راشد خواجہ اور اداکارہ سجل علی کے علاوہ بھارتی فلم ساز نندیتا داس، اسکرپٹ رائٹر انجم رجب علی، فلم ساز ہرش نرائن اور وشال بھاردواج شامل تھے۔

اس گفتگو میں دونوں طرف فلمی صنعت میں ایک دوسرے کے لیے موجود مواقع اور مشکلات سمیت باہمی تعلقات پر بات کی گئی۔ پاکستانی فلم سازوں عاصم رضا اور راشد خواجہ نے اس موقع کو خوشگوار قرار دیا کہ پاکستان اور بھارت کے فنکاروں کے مابین مکالمہ ہو رہا ہے۔ نندیتا داس نے اپنی زیرِ تکمیل فلم ’منٹو‘ پر بات کی جبکہ اسکرپٹ رائٹر انجم رجب علی نے اسکرپٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ وشال بھاردواج نے اپنے فلمی سفر پر روشنی ڈالی جبکہ ہرش نرائن نے جنوبی ایشاء کے ممالک کے لیے ایک فلم فورم بنانے کا مشورہ دیا۔

دوسرے دن کی کارروائی

دوسرے دن کی گفتگو کا موضوع ’جنوبی ایشیاء کی فلمی صنعت میں انفرادیت کی تلاش‘ تھا۔ اس پینل میں گفتگو کرنے والوں میں معروف بھارتی اداکار ’ونے پاٹھک، فلم ساز نندیتا داس اور راج مولی سمیت دیگر بھارتی فلم ساز شامل تھے۔ پاکستان سے نوجوان نسل کے باصلاحیت فلم ساز اور اداکار عدنان سرور نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ اسی دن ایک اور پینل میں ’اسکرپٹ سے اسکرین تک‘ کے موضوع سے ہونے والی گفتگو میں بھارتی اسکرپٹ رائٹرز رجب انجم علی اور زینت لاکھانی سمیت دیگر نے حصہ لیا اور دونوں طرف امکانات اور تکنیکی پہلوؤں پر بات کی گئی۔

تیسرے دن کی کارروائی

تیسرے روز مزید 2 پینلز کا انعقاد ہوا، جن کے عنوانات ’فلم تبدیلی کے لیے‘ اور ’موسیقی کا مستقبل‘ تھے۔ جن میں پاکستانی فلم ساز جامی، اداکارہ حریم فاروق، بھارتی فلم ساز سبھاش کپور جبکہ معروف گلوکار علی ظفر شامل تھے۔ دونوں پینلز میں ایک ہی بات کی گئی کہ دونوں طرف کی مشترکہ فلم سازی پر بات ہونی چاہیے۔ پاکستانی فلم ساز جامی نے بہت عمدہ گفتگو کی اور کہا کہ ’ہمیں کسی اور کے لیے فلمیں بنانے کے بجائے اپنے لیے فلمیں بنانی چاہئیں، ہمارے معاشرے میں بہت ساری کہانیاں منتظر ہیں کہ فلم ساز ان پر کام کریں اور ہم اپنے لوگوں کے لیے فلمیں بنائیں۔‘

دوسرا پینل موسیقی کے متعلق تھا، جس میں مہمان اور میزبان آپس میں اُلجھ پڑے۔ موسیقار اور اداکار ارشد محمود اس سیشن کی میزبانی کررہے تھے جبکہ مہمانوں میں عزت مجید، آصف نورانی، سلطان ارشد، ریکھا بھاردواج، عمر عادل، علی ظفر اور دیگر شامل تھے۔ پینل کے میزبان نے فارمیٹ کو ذہن میں رکھنے کے بجائے اپنے موڈ کے مطابق سیشن کو چلایا، جس کی وجہ سے خاص طور پر ایک مہمان نے بہت بُرا مانا اور وہیں اس کا اظہار بھی کردیا۔ اس منفی عمل کا تاثر غیر ملکی مہمانوں پر بہت بُرا پڑا۔

لہٰذا اس طرح کے معاملات میں انتظامیہ کو غیر لچک دار رویہ اپنانا چاہیے، کیونکہ یہ ملکی ساکھ کا مسئلہ ہے۔

مجموعی حیثیت میں اس فلم فیسٹیول کا انعقاد ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ سلطانہ صدیقی اور ان کی ٹیم میں شامل بدر اکرام سمیت تمام اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی شب و روز محنت اور جدوجہد سے یہ ایونٹ منعقد ہوسکا۔ ہمیں اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ جب ہم اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوں اور ہمارے درمیان غیر ملکی مہمان بھی موجود ہوں تو کوئی بات سُبکی کا باعث نہ بنے، پھر مہمانوں کی مہمان نوازی سے لے کر اپنے ملک کی طرف سے دیے جانے والے پیغامات پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس تناظر میں کچھ چیزوں کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں اور بھرپور طریقے سے ایونٹ کا انعقاد کیا جائے، یہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔

پہلی توجہ

چونکہ فیسٹیول کا نام ’پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بورڈ ممبران سمیت دیگر شعبوں میں ایسی شخصیات کو شامل کیا جائے، جن کا تعلق فلمی صنعت سے ہو پھر چاہے ان کا تعلق کسی بھی شہر سے ہو۔ اس حوالے سے اہم بات یہ کہ جن شخصیات کا تعلق بین الاقوامی سینما سے ہے انہیں ترجیح میں پہلے رکھا جائے تاکہ یہ حقیقی معنوں میں پاکستانی فلمی میلہ بن سکے۔ وہ لوگ جن کا عملی طور پر فلمی شعبے میں کوئی اشتراک نہیں ان کو دور رکھا جائے بلکہ ممکن ہو تو نئی نسل سے وابستہ فلم ساز جو بہت اچھا کام کررہے ہیں، ان کو بھی شامل مشاورت کیا جائے۔

دوسری توجہ

دوسری بات یہ کہ فیسٹیول میں شامل فلمیں، مندوبین، اسکریننگ کے حوالے سے کوئی باقاعدہ تشہیر نہیں ہوسکی، جس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ کن مقامات پر کون سی فلمیں دکھائی جارہی ہیں، اس کا شیڈول کافی دیر سے جاری ہوا، اگر پہلے سے موجود بھی تھا تو شائقین تک نہیں پہنچا اور سوشل میڈیا پر اور بھی بہتر انداز میں اپ ڈیٹس دی جاسکتی تھیں۔

رجسٹریشن کا عمل بھی سست تھا، دیگر کئی پہلوؤں سے کافی سقم رہے، جن کو مستقبل میں دور کیا جانا چاہیے۔ پرنٹ پر چھپا ہوا شیڈول بھی تاخیر سے چھپ کر شرکاء کو ملا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ دنیا بھر میں ہونے والے فیسٹیول اپنے ملک کی قومی زبان کو مدِنظر رکھتے ہیں، ہمارے ہاں فلمیں بنائی تو اردو زبان میں جاتی ہیں مگر نہ جانے کیوں ان کی تشہیر کے لیے بدیسی زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے، اگر اردو زبان بھی کہیں تشہیری معاملات میں شامل ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

تیسری توجہ

تیسری بات کراچی اور لاہور کے فلمی حلقے سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات نالاں ہیں کہ انہیں اس فلمی میلے میں شریک نہیں کیا گیا، کئی ایک کو دعوت تک نہیں دی گئی اور کئی غیر ضروری بالخصوص ڈرامے سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کو اس میں بھر دیا گیا۔ ایک ہی جگہ پر تمام پینل ڈسکشنز کے انعقاد سے لگتا ہے خانہ پُری کی گئی، شہر کے لحاظ سے ان پینل ڈسکشن کو کسی مرکزی اور وسطی جگہ پر ہونا چاہیے تھا جہاں عام لوگ آسانی سے شریک ہوسکتے۔

چوتھی توجہ

چوتھی بات فلم فیسٹیول کے ایوارڈز میں میزبانوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کس سے کیا بات کرنی ہے، صرف فی البدی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر جب پروین رحمٰن کی ڈاکیومنٹری کے ایوارڈ کے لیے اس کی فلم ساز ماہرہ عمر کو مدعو کیا گیا تو میزبان انہی کو پروین رحمٰن سمجھ بیٹھے، اس سے اندازہ لگائیے کہ ان کی معلومات کتنی ہیں اور کیا تیاری تھی۔

پانچویں توجہ

پانچویں اور آخری بات فیسٹیول ایوارڈز دیتے وقت پرانی فلموں کے بجائے تازہ فلموں کو نظر میں رکھا جائے۔ اچھی جیوری ہونے کے باوجود نتائج تسلی بخش نہیں رہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ کیک جیسی فلم جو فیسٹیول شروع ہونے کے 2 دن بعد ریلیز ہوئی، وہ پہلے سے ہی نامزدگی کے خانے میں موجود تھی۔ پھر ایک طرف فہد مصطفیٰ کو 2 سال پُرانی فلم پر بہترین اداکار کا ایوارڈ دے دیا گیا، جبکہ دوسری طرف ہندی میڈیم جیسی فلم کہیں جگہ نہ بناسکی۔ مہرین جبار کی فلم ’لالا بیگم‘ جس کا دورانیہ خاصا کم تھا، اس کو فیچر فلم میں جگہ دے دی گئی، پھر چوٹی کی دیگر فلموں کے مقابلے میں اس کو ایوارڈ بھی مل گیا اور اس سے بڑھ کر مہرین جبار کراچی میں موجود ہونے کے باوجود ایوارڈ وصول کرنے کے لیے تقریب میں تشریف نہ لائیں، حالانکہ ایک دن پہلے اسی فیسٹیول کی ذیلی تقریب میں انہوں نے شرکت بھی کی تھی۔ یہ وہ رویے اور انداز ہیں جو کئی سوالیہ نشان چھوڑتے ہیں، اس لیے انتظامیہ کو ان کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

بہرحال مجموعی طور پر پہلے برس کے طور پر اس فیسٹیول کا انعقاد بہت عمدہ ہے، لیکن اگر یہ یونہی کسی پلاننگ کے بغیر، غیر متعلقہ لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا تو پھر اس کا معیار طے ہونا مشکل ہوجائے گا۔ صرف میلہ سجا لینا کافی نہیں، بلکہ اس تناظر میں وہ ذمے داری پوری کریں جو ملک کی نمائندگی کی صورت میں آپ پر عائد ہوتی ہے اور جس کا آپ دعویٰ بھی کررہے ہیں اور حقیقی معنوں میں تب ہی فلمی صنعت مستحکم ہوگی۔ لہٰذا پہلا سال ہونے کے ناطے بہت کچھ نظر انداز کردیا گیا ہے لیکن ہر سال اس کی گنجائش نہیں ہوگی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Apr 07, 2018 12:24pm
Aap ki detailed reporting parh kar festival main jaee baghair hi kafi info mil jati hai,, great reprinting, hope such festivals will continue